طلب دعا عطا کی چابی ( باب  دہم)

طلب دعا عطا کی چابی کے عنوان سے  باب  دہم میں  حکمت نمبر 102 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جیسا کہ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس حقیقت کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا:
102) متى أطْلَقَ لسانَكَ بالطَّلبِ؛ فاعْلَمْ أنَّه يُريدُ أنْ يُعطيَكَ.
جب اللہ تعالیٰ تمہاری زبان طلب (دعا) کے لئے کھول دے تو تم یہ سمجھ لو کہ وہ تمہیں عطا کرنا چاہتا ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: ایسا اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلب کو اسباب میں سے ایک سبب بنایا ہے۔پس جب بندے کے لئے اس چیز کو پورا کرنا چاہتا ہے جو اس کے لئے پہلے سے مقدر ہو چکی ہے، تو اس کے بارے میں اس کے لئے طلب کا دروازہ کھولتا ہے۔ پھر جب اس کی جانب سے طلب ہوتی ہے تو وہ چیز جو ازل میں اس کی قسمت میں لکھی گئی ہے اس کو حاصل ہو جاتی ہے۔ تا کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ظاہر ہو۔ اور اس کی قدرت اور اس کا راز پوشیدہ رہے۔ تو دعا ان تمام اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ جن کا انسان عادی ہے۔ مثالی کا شتکاری ، اور دواء اور اولاد کے لئے نکاح وغیرہ۔ اور ان کے لئے مشیت الہٰی پہلے ہی مقرر ہو چکی ہے۔ اور قضا و قدر کا حکم مقرر ہو چکا ہے۔ تو اپنی محتاجی کے ظاہر کرے، اور بندگی کے طریقے کو قائم رکھنے کے سواء دعا کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ دعا اس چیز کے حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے جو قضا و قدر میں مقدر نہیں ہوا ازل کا حکم اس سے بلند ہے کہ اس کی نسبت اسباب وذرائع کے ساتھ کی جائے۔
پس اے مریدہ جب اللہ تعالیٰ تمہاری زبان کو ایسی چیز کی طلب کیلئے کھولدے جو تمہارے قلب میں ظاہر ہوئی یا تمہیں اس کی حاجت ہوئی تو تم یہ کہوکہ اللہ تعالیٰ وہ چیز تم کو عطا کرنا چاہتا ہے جو تم نے اس سے طلب کی ہےلہذا تم حرص نہ کرو نہ جلد بازی کرو کیونکہ ہر شے اس کے پاس ایک اندازےکے ساتھ مقرر ہے لیکن اگر وہ دعاکیلئے تمہاری زبان بغیر سبب کے کھولدے تو بہتر یہ ہے کہ تم اس سے وہی طلب کرو جو تم سے طلب کرتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔
حضرت رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے۔
مَنْ أُعْطِيَ الدُّعَاءَ لَمْ يُحْرَم الإِجَابَةَ جس شخص کو دعا کی توفیق دی جاتی ہے اسکو قبولیت سے محروم نہیں کیا جاتا ہے۔
نیز سول کریم ﷺ نے فرمایا ہے من أَذنَ لَهُ في الدُّعَاء فَقَدْ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ ، وَمَا سُئِلَ اللَّهُ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ العَفْوِ والعافية تم میں سے جس کو دعا کی اجازت (توفیق) دی جاتی ہے۔ اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے جتنی چیزیں دعا کے ذریعہ طلب کی جاتی ہیں۔ان میں سے اس کے نزدیک سب سے پسندیدہ معافی اور عافیت کی طلب ہے۔ حضرت کتانی رضی اللہ نے فرمایا ہے: جب اللہ تعالیٰ نے مومن کی زبان معذرت کے لئے کھول دی تو اس کے لئے مغفرت کا دروازہ کھول دیا۔
حضرت خفاف رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ مومن کی دعا کو کیوں نہ قبول کرے گا حالانکہ وہ اس کی آواز کو پسند کرتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا یعنی قبول نہ کرنا ہوتا تو اس کو دعا کی توفیق نہ دی جاتی۔
اس کے بارے میں یہ شعر کہا گیا ہے:
ولو لم تُرِدُ نَيْلَ مَا أَرْجُو وَأَطْلبه مِنْ فَیْضِ جُوْدِكَ مَا عَلَّمْتَنِي الطَّلَبَا
جو کچھ میں امید اور طلب کرتا ہوں۔ اگر تو اپنی بخشش کے فیض سے عطا کرنانہ چاہتا تو مجھے طلب کرنا نہ سکھاتا۔ یعنی دعا کی توفیق نہ دیتا پھر یہ سب (یعنی طلب اور دعا ) معرفت کا دروازہ کھلنے سے پہلے ہے۔
اور جب تمہارے لئے معرفت کا دروازہ کھول دیا گیا۔ پھر تم کو طلب کی حاجت باقی نہیں رہتی کیونکہ اب تم مسبب الاسباب اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہو کر ہرشے سے بے نیاز ہو چکے ہو۔ پھر تمہاری دعا صرف محتاجی اور مجبوری ظاہر کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ اورمحتاجی اور مجبوری دونوں تمہارے لئے ہر سانس ، اور ہر وقت اور ہر حالت میں لازمی دضروری ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں