عارف کی مجبوری و بےقراری ( باب  دہم)

عارف کی مجبوری و بےقراری کے عنوان سے  باب  دہم میں  حکمت نمبر 103 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے۔۔
103) العَارِفُ لا يَزُولُ اضْطِرَارُهُ وَلاَ يَكُونُ مَعَ غَيْرِ اللّهِ قَرَارُهُ.
عارف کی مجبوری اور بے قراری ہمیشہ رہتی ہے کبھی زائل نہیں ہوتی ہے۔ اور غیر اللہ کے ساتھ اس کو سکون وقرار نہیں ہوتا ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: عارف کے ہمیشہ محتاج اور بے قرار ہونے کی وجہ یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قیام اس کے ساتھ ثابت ہے۔ اس لئے کہ ظاہر باطن کے بغیر قائم نہیں ہوتا پس عبودیت کا ظاہر، ربوبیت کے باطن کے بغیر قائم نہیں ہوتا تو ربوبیت کے قیام میں بندے کے ثابت ہونے کے مطابق عبودیت کے ظاہر میں اس کی بے قراری اور محتاجی بڑھتی ہے۔
نیز عارف ہمیشہ ترقی کی طرف جاتا ہے تو وہ زیادتی کے لئے ہمیشہ پیاسا رہتا ہے۔ جیسا کہ حضرت نقشبندی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَذُو الصَّبَابَةِ لَو يُسْقَى عَلَى عَدَ دِالَا نُفَاسِ وَالْكُونُ كَاسٌ لَيْسَ يُرْوِيهِ
اور عاشق کو اگر اس کی سانس کی تعداد کے برابر شراب محبت پلائی جائے اور ساری دنیا پیالہ بن جائے تو بھی اس کو آسودہ نہیں کیا جا سکتا۔
اور ایک دوسرے شاعر نے فرمایا ہے:
سَقَانِي الْحُبُّ كأساً بَعْدَ كَاسٍ فَمَا نَفِدَ الشَّرَابُ وَلَا رَوِيْتُ
مجھ کو شراب محبت نے جام پر جام ( پیالہ پر پیالہ ) پلایا۔ تو نہ شراب ختم ہوئی نہ میں آسودہ ہوا۔
ایک عارف نے فرمایا ہے۔ اگر تم ہرلمحہ میں ہزاروں سمندر پی جاؤ۔ تو یہ بھی تم کو تھوڑ ا معلوم ہو گا۔ اور تم اپنے دونوں ہونٹوں کو خشک پاؤ گے۔
اور یہ سب کنایہ ہے ۔ یعنی معرفت الہٰی لا انتہا اور غیر محدود ہے ۔ اور مقصود گھیرے میں نہیں آ سکتا۔ پس عارف ہمیشہ زیادتی کے لئے محتاج رہتا ہے۔ اور اس کی بے قراری ہمیشہ رہتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے سارے عارفین کے سردار حضرت رسول کریم ﷺسے فرمایا: (وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا) آپ کہیے ! اے رب مجھے علم میں زیادہ کر پس علم کی زیادتی کے لئے محتاجی اور بے قراری ختم نہیں ہوتی ہے۔ اگر چہ کل آسمانوں اور زمین کا علم جمع کرلے۔ اور اللہ تعالیٰ نے کل عالم کو مخاطب کر کے فرمایا:
وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلاً .اور تم لوگوں کو علم نہیں دیا گیا مگر تھوڑا۔
اور اس کے غیر اللہ کے ساتھ سکون اور قرار نہ ہونے کی وجہ یہ ہے؟ عارف کا قلب تمام مخلوق سے اللہ تعالیٰ کی طرف کوچ کر گیا ہے تو اس کو اب غیر اللہ سے کچھ حاجت باقی نہیں رہی۔ پس اس کا سکون صرف ذات اقدس کے مشاہدہ میں ہے۔ پھر اگر وہ مخلوق کے آسمان ، یا فوائد کی زمین طرف نزول کرتا ہے تو حکم ، اور یقین میں ثبات اور رسوخ (ثابت قدمی اور مضبوطی ) کے ساتھ نزول کرتا ہے۔ لہذ ا عارف کو اپنے نفس کی خبر نہیں ہوتی ہے۔ نہ اس کو غیر اللہ کے ساتھ قرار ہوتا ہے۔ نیز عنایت الہٰی اس کو چھوڑتی بھی نہیں ہے کہ وہ غیر اللہ کی طرف مائل ہو۔ تو جب بھی اس کا قلب کسی شے کی طرف مائل ہوتا ہے تو عنایت الہٰی اس کو پریشان کر دیتی ہے۔ اور حفاظت الہٰی اس کو اپنی پناہ میں لے لیتی ہے پس وہ غیر اللہ سے محفوظ ، انوار کی مدد سے ہر طرف سے گھرا ہوتا ہے اور جب کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں کے ، چوری سننے سے آسمان کی حفاظت فرمائی۔ تو غیروں سے اپنے اولیاء کے قلوب کی حفاظت کیوں نہ فرمائے گا؟ اور اس نے ان کو اپنی محبت کے ساتھ اپنا ولی اس وقت تک نہیں بنایا جب تک اپنے غیر کے مشاہدہ سے ان کی حفاظت نہ کر لی ۔ تو اب وہ اس کے غیر کی طرف کیسے مائل ہو سکتا ہے۔ اور اس کے غیر کے ساتھ کیسے قرار حاصل کر سکتا ہے؟


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں