عامل کی قدر کا میزان (باب ہشتم)

  عامل کی قدر کا میزان کے عنوان سے  باب  ہشتم میں  حکمت نمبر69 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

باب ہشتم

واردات الہٰیہ کے بیان میں حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:۔
69) قَلَّمَا تَكُونُ الْوَارِدَاتُ الإِلَهِيَّةُ إِلاَّ بَغْتَةً ، لِئَلاَّ يَدَّعِيَهَا الْعِبَادُ بِوُجُودِ الاسْتِعْدَادِ.
واردات الہٰی بہت کم آتے ہیں مگر اچانک۔ تاکہ ان کی اس سے حفاظت ہو کہ بندے اس کا دعوی اپنی قابلیت کے وجود کے ساتھ کریں۔
حضرت قشیری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ وارد:۔ وہ ہے، کہ جو شے بندے کی برداشت سے باہر ہے، اس کے بہترین خواطر قلوب پر وارد ہوتے ہیں۔ اور واردات :- خواطر سے عام ہیں۔ کیونکہ خواطر خطاب کی نوع کے ساتھ مخصوص ہوتے ہیں۔ یا اس چیز کے ساتھ مخصوص ہوتے ہیں ، جو خطاب کی نوع کے معنی کو شامل ہو ۔ اور واردات:۔ خوشی اور غم ، اور قبض و بسط کے اور اس کے علاوہ
دوسرے حالات کے وارد ہوتے ہیں۔ اور وارد، حال کے قریب ہے۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے الہٰی واردات ، اور شیطانی مظاہروں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا ۔ وارد الہٰی ، نہ استعداد و صلاحیت سے آتا ہے نہ کسی سبب سے جاتا ہے۔ اس کے آنے کے لئے نہ کوئی طریقہ مقرر ہے، نہ کوئی وقت ۔ اور شیطانی مظاہرہ: غالباً اس کے خلاف ہوتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ واردات سے یہاں ایک خاص قسم مراد ہے ۔ اور وہ الہٰی خوشبو میں ہیں جو اس کی رحمت کی نیم (ہلکی ہوا ) قلوب و ارواح و اسرار پر پہنچاتی ہیں ۔ پس قلوب علام الغیوب کے حضور میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور ارواح، عزیز جبار کے جبروت میں گم ہو جاتی ہیں۔ تو وہ خوشی و سرور میں مد ہوش ہو جاتی ہیں ۔ اور شوق و خوشی میں ناچنے لگتی ہیں:۔
إِذَا اهْتَزَّتِ الْأَرْوَاحُ شَوْقاً إِلَى اللَّقَا تَرَقَصَتِ الْأَشْبَاحُ يَا جَاهِلَ الْمَعْنى
اے حقیقت سے نا واقف ! جب روحیں ملاقات کے شوق میں جھومتی ہیں تو جسم ناچنے لگتے ہیں۔ اور یہ الہٰی واردات کم لیکن اچانک واقع ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ کسب سے نہیں پائے جاتے بلکہ کریم وہاب کی طرف سے عطا کئے جاتے ہیں۔ اور اگر یہ کوشش اور محنت سے پائے جاتے تو عابدین اور زاہدین آمادگی و استعداد کے واجب ہونے کی وجہ سے اس کا دعوی کرتے ۔ تو اس وقت یہ کسبی چیز ہوتی۔ پس احوال اور واردات صرف وحی یعنی عطیہ الہٰی ہیں:۔ (يَخۡتَصُّ ‌بِرَحۡمَتِهِۦ مَن يَشَآءُۗ وَٱللَّهُ ذُو ٱلۡفَضۡلِ ٱلۡعَظِيمِ
وہ اپنی رحمت کے ساتھ مخصوص کرتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بہت بڑا فضل والا ہے۔
حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ واردات کے اچانک آنے میں تین حکمت ہے:۔
پہلی حکمت : وہ اس میں اللہ تعالیٰ کے احسان کو پہچانے ۔
دوسری حکمت : وہ ان کے قدر و مرتبے کے اندازہ کرے اور اس کی وجہ سے خوشی زیادہ ہو۔
تیسری حکمت :۔ اس پر غیرت یعنی رشک ہو۔ اور اس کی عزت کرے۔ کیونکہ عزیز کی طرف سے آئی ہوئی چیز عزیز ہوتی ہے۔ پس بے شک یہ الہٰی واردات ، اور خاص بخششیں، حکیم اور غفار اللہ تعالیٰ کے اسرار ہیں۔ جنہیں وہ عطا نہیں کرتا۔ مگر حفاظت و امانت والوں کو ۔ نہ کہ ظاہر کرنے اور خیانت کرنے والوں کو ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں