غافل اورعاقل کی سوچ کا انداز (بارھواں باب)

غافل اورعاقل کی سوچ کا انداز کے عنوان سے بارھویں باب میں  حکمت نمبر 114 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
انوار کے ظاہر ہونے کی علامت:۔ تدبیر اور اختیار کو ترک کرنا ، اور واحد قہار اللہ تعالی کے دیکھنے کو کافی سمجھنا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کی طرف اشارہ فرمایا:
114) الغافِلُ إذا أَصْبَحَ يَنْظُرُ ماذا يَفْعَلُ، وَالعاقِلُ يَنْظُرُ ماذا يَفْعَلُ اللهُ بِهِ.
غافل، جب صبح کو اٹھتا ہے۔ تو وہ یہ سوچتا ہے کہ آج کیا کرے گا۔ اور عاقل ( عارف ) یہ غور کرتا ہے کہ آج اللہ تعالی اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا (یعنی تقدیر الہی اس کے حق میں کیاہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ غافل : وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ سے جاہل ہو، اگر چہ اس کی زبان کا ذکر زیادہ ہو۔
اور عاقل : وہ اللہ تعالی کا عارف ہے۔ اگر چہ اس کی زبان کا ذکر کم ہو ۔ اس لئے کہ معتبر قلب کا ذکر ہے۔
تو غافل کا نفس موجود ہوتا ہے۔ اور اس کی امیدیں دراز ہوتی ہیں۔ جب وہ صبح کرتا ہے وہ سوچتا ہے کہ آج اپنے لئے کیا کرے گا۔ پھر وہ اس کے احوال، اور ضروریات کی تد بیر اپنی عقل اور گفتگو سے کرتا ہے۔ تو وہ اپنے فعل پر نظر رکھتا ہے۔ اور اپنے اختیار اور قوت پر بھروسہ کرتا ہے۔ لیکن جب قضائے الہی اس کی ان تدبیروں کو الٹ دیتی ہے، جن کو اس نے بڑی مضبوطی سے کیا تھا۔ اور اس کی امیدوں کو فنا کر دیتی ہے تو وہ ناراض ہوتا ، اور رنج و مایوسی میں مبتلا ہوتا ہے۔ پھر وہ اللہ تعالی سے لڑائی کرتا ہے۔ اور بے ادبی سے پیش آتا ہے۔ تو لازمی طور پر وہ اللہ تعالی سے دور ہونے کا مستحق ہوتا ہے۔ اور اس کے قلب میں وحشت اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ مگر یہ کہ توفیق الہی سے اس کو اللہ تعالی کی طرف رجوع حاصل ہو جائے ۔ اور وہ برابر امید لگائے ہوئے دروازہ پر کھڑا ر ہے۔ یہاں تک کہ اس سے حجاب اٹھ جائے ۔ اور اب وہ احباب میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور عاقل : وہ عارف ہے۔ جس کے قلب میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ثابت ہو چکی ہے، اور وہ اپنے قلب کی پوری توجہ کے ساتھ اس کے سامنے موجود ہے، اور اس کے قلب میں عرفان کے سورج روشن ہو چکے ہیں۔ اور اس کی نظر سے مخلوق کا وجود چھپ گیا ہے۔ تو اب اس کو اپنے نفس کی کچھ خبر نہیں ہے ۔ نہ اسے غیر اللہ کے ساتھ قرار ہے۔ اس کا تصرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ کیونکہ وہ اپنے نفس سے فنا ہو چکا ہے۔ اور اپنے رب اللہ تعالی کے ساتھ باقی ہو گیا ہے۔ تو اب وہ اپنے لئے نہ ترک دیکھتا ہے، نہ فعل، نہ قوت دیکھتا ہے، نہ اختیار ۔ تو جب وہ صبح کرتا ہے تو وہ یہ غور کرتا ہے کہ اللہ تعالی اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا۔ تو وہ رضامندی اور خوشی ، اور فرحت و سرور سے اس کا سامنا کرتا ہے جو اس پر وارد ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس کو حق الیقین ، اور اللہ رب العالمین کے ساتھ غنا حاصل ہے۔
حضرت سید نا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اس حال میں صبح کی کہ مجھ کوکوئی خوشی نہیں ہے۔ مگر قضا و قدر کے موقعوں کی ۔
حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ چالیس سال کا زمانہ گزرا، جب سے میرا یہ حال ہے کہ اگر اللہ تعالی نے مجھے کسی حال میں قائم کیا تو میں نے اس کو نا گوار نہیں سمجھا۔ اور جب کسی دوسرے حال میں منتقل کر دیا تو میں اس پر ناراض نہیں ہوا۔ تو اگر فقیر یہ چاہتا ہے کہ اس کا تصرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو۔ تو اس کو اپنے فوائد ، اور اپنی خواہشات سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیئے ۔ پھر جب کوئی کام کرنے کا ارادہ کرے تو اس کو آہستگی اور صبر اختیار کرنا چاہیئے ۔ اور ہاتف غیبی آواز) کی طرف کان لگانا چاہیئے ۔ کیونکہ اللہ تعالی اس کو غیبی آواز سے اس کام کے لئے آگاہ کرتا ہے جس کام کے کرنے ، یا ترک کرنے کی طرف وہ متوجہ ہونے کا ارادہ کرتا ہے۔ اور ہم نے اپنے سفر کرنے ، اور قیام کرنے کے معاملے میں اس کا تجربہ کیا ہے۔ تو ہم تصرف نہیں کرتے تھے مگر خاص اجازت سے۔ والحمدللہ ۔
اور سب فقراء کو اپنی کوشش میں اسی طرح آہستگی اور صبر اختیار کرنا چاہیئے کیونکہ آہستگی اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔ اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔
حضرت شیخ مجذوب ولی عارف سیدی احمد ابو سلہام رضی اللہ عنہ ا کثر مجھ کو یہ شعر سنایا کرتا تھے :
تَانِ وَلَا تَعْجَلُ لَا مُرِ تُرِيدُهُ وَكُنْ رَاحِمَا بِالْخَلْقِ تُبْلَى بِرَاحِمِ
جو کام تم کرنا چاہتے ہو۔ اس میں آہستگی اختیار کرو۔ اور جلد بازی نہ کرو۔ اور مخلوق کے ساتھ رحم کرو۔ تم رحم کرنے والے کے ساتھ آزمائے جاؤ گے ۔ پس اے مرید! اپنی کوشش میں آہستگی اور صبر اپنے اوپر لازم کرلو ۔ اور اپنے تمام امور میں اللہ تعالی سے سمجھ ( مشورہ ) طلب کرو ۔ اور یہ شعر اپنے پیش نظر رکھو:۔
اتَّبَعُ رِیَاحَ الْقَضَا وَدُرْحَيْثُ دَارَتْ وَسَلَّمُ لِسَلْمَى وَسِرْ حَيْثُ سَارَتْ
قضا و قدر کی ہوا کے پیچھے چلو اور جس طرح وہ پھرتی ہے تم بھی اسی طرف پھرو۔ سلمی کو تسلیم کرو۔ اور جدھر وہ چلتی ہے تم بھی ادھر ہی چلو ۔
اور اس معاملے میں حضرت نبی کریم ﷺکی دعاؤں سے امداد طلب کرو ۔ ایسے ہی مقام میں حضرت نے اس طرح دعا فرمائی ہے: اللَّهُمَّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ، وَلَا مَوْتًا وَلَا حَيَاةً ‌وَلَا ‌نُشُورًا ، وَلَا أَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ إِلَّا مَا أَعْطَيْتَنِي ، وَلَا أَتَّقِيَ إِلَّا مَا وَقَيْتَنِي ، فَوَفِّقْنِي لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضَى مِنَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ ، قَالَ: إِنْ دَعَا بِهَا فَهُوَ فِي عَافِيَةٍ
اے اللہ! میں نے اس حال میں صبح کی ہے۔ کہ اپنی ذات کے لئے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ فائدے کا ، اور نہ موت کا اختیار رکھتا ہوں نہ زندگی کا، اور نہ موت کے بعد زندہ ہو کر اٹھنے کا۔ جو کچھ تو نے مجھ کو عطا کیا، اس کے سوا کچھ بھی حاصل کرنے کی طاقت میں نہیں رکھتا ہوں ۔ اور جس چیز سے تو نے مجھ کو بچایا۔ اس کے علاوہ کسی چیز سے بچنے کی طاقت میرے اندر نہیں ہے۔ تو اے اللہ تو مجھے اس قول اور فعل کی توفیق عطا فرما۔ جس کو تو مجھ سے پسند کرتا ہے۔ اور مجھ کو اپنی عافیت اور پناہ میں رکھ۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
نیز حضرت نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعا فرمائی:
اللَّهُمَّ ‌إِنِّي ‌أَصْبَحْتُ لَا أَسْتَطِيعُ دَفْعَ مَا أَكْرَهُ، وَلَا أَمْلِكُ نَفْعَ مَا أَرْجُو، وَأَصْبَحَ الْأَمْرُ بِيَدِ غَيْرِي، وَأَصْبَحْتُ مُرْتَهَنًا بِعَمَلِي، فَلَا فَقِيرَ أَفْقَرُ مِنِّي، اللَّهُمَّ لَا تُشَمِّتْ بِي عَدُوِّي، وَلَا تَسُؤْ بِي صَدِيقِي، وَلَا تَجْعَلْ مُصِيبَتِي فِي دِينِي، وَلَا تُسَلِّطْ عَلَيَّ مَنْ لَا يَرْحَمُنِي
اے اللہ ! بے شک میں نے اس حال میں صبح کی ہے۔ کہ جس چیز کو میں ناگوار سمجھتا ہوں، اس کو بھی دور کرنے کی طاقت میں نہیں رکھتا ہوں۔ اور جس چیز کی میں امید کرتا ہوں ، اس کے حاصل کرنے کی بھی طاقت میں نہیں رکھتا ہوں۔ میرا معاملہ دوسرے کے اختیار میں ہے۔ اور میں اپنے عمل کے ساتھ گرو ی ہوں ۔ تو مجھ سے زیادہ محتاج، کوئی محتاج نہیں ہے ۔ اے اللہ تو مجھ کو رسوا کر کے میرے دشمن کو میرے اوپر ہنسنے کا موقع نہ دے۔ اور میرے دوست کو میرے ساتھ برا نہ بنا۔ اور میرے دین میں میرے لئے مصیبت نہ بنا۔ اور دنیا کو میر ی سب سے بڑی فکر ، اور میرے علم کو مقصد نہ بنا۔ اور میرے اوپر کسی ایسے شخص کو غالب نہ کر، جو میرے اوپر رحم نہ کرے ۔
ان دو دعاؤں کے علاوہ بھی وہ دعا ئیں جو رضا و تسلیم پیدا کرتی ہیں۔ اور حضرت نبی کریم ﷺ کی ان دعاؤں سے مقصود ان کے معانی و مفہوم کو سمجھنا ہے۔ اور دل میں بٹھانا ہے۔ نہ کہ صرف ان کے الفاظ کو زبان سے پڑھنا۔ کیونکہ مقصود معانی ہیں۔ نہ کہ ظاہری لفظ ۔ واللہ تعالی اعلم ۔
اور ہماری طریقت کے شیخ حضرت قطب ابن مشیش رضی اللہ عنہ کی وہ وصیت ان معانی پر جامع ہے۔ جو انہوں نے اس شخص کو فرمائی: جس نے ان سے عرض کیا۔ میرے لئے آپ وظائف و اور اد مقرر فرما ئیں۔ تو حضرت شیخ نے ناراض ہو کر فرمایا: کیا میں رسول ہوں۔ جو واجبات کو واجب کروں؟ فرائض معلوم ہیں۔ گناہ مشہور ہیں۔ تو فرائض کی حفاظت کرو۔ اور گناہوں کو ترک کرو۔ اور دنیا کی ہوس، اور عورتوں کی محبت سے ، اور مرتبہ اور خواہشات کے اختیار کرنے سے اپنے قلب کی حفاظت کرو۔ اور ان سب میں اس پر قناعت کرو۔ واللہ تعالی نے تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہے۔ جب تمہارے لئے رضا مندی کی کوئی صورت پیدا ہو۔ اور وہ اللہ تعالی کا جمال ہے۔ تو تم اس میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرو۔ اور جب تمہارے لئے ناراضی کی کوئی شکل ظا ہر ہو ۔ جو اللہ تعالی کا جلال ہے۔ تو تم اس پر صبر کرو۔ اور اللہ تعالی کی محبت : – قطب (مرکز) ہے۔ جس کے گرد ساری نیکیاں گھومتی ہیں۔ اور یہی وہ اصل ہے جو تمام کرامات کی جامع ہے۔ اور ان سب کا قلعہ چار چیزیں ہیں
ورع کی سچائی نیت کی درستی عمل کا اخلاص علم کی محبت
اور یہ چاروں چیزیں عمل نہیں ہوتی ہیں۔ جب تک صالح بھائی۔ یا نصیحت کرنے والے شیخ کی صحبت نہ حاصل ہو۔
حضرت شیخ ابوا الحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ تم اس کی حرص کرو۔ کہ تم اللہ تعالی کی سپردگی اور اس کی رضا پر راضی ہونے کی حالت میں صبح اور شام کرو تا کہ اللہ تعالی تمہاری طرف نظرکرے۔ پھر تمہارے اوپر رحم کرے۔ ایک عارف نے فرمایا ہے: جو شخص اللہ تعالی کی طرف راستہ پاتا ہے۔ اس کو اپنے نفس کی طرف راستہ نہیں ملتا ہے۔ اور جس شخص کااپنے نفس کی طرف راستہ ملتا ہے۔ وہ اللہ تعالی کی طرف راستہ نہیں پاتا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ تعالی کو دیکھتا ہے۔ وہ اپنے نفس سے غائب ہو جاتا ہے۔ اور جو شخص اپنے نفس کو دیکھتا ہے وہ اللہ تعالی سے محجوب ہو جاتا ہے۔ اور عاقل : ۔ جو یہ سوچتا ہے کہ اللہ تعالی کیا معاملہ کرے گا ۔ وہی عارف ہے۔ جیسا کہ پہلےبیان کیا گیا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں