غیر اللہ سے سوال (باب چہارم)

غیر اللہ سے سوال حکمت نمبر39

اللہ سے حسن ظن رکھو کے عنوان سے  باب  چہارم میں  حکمت نمبر39 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جب تم اپنے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور کرم اور کمال اور احسان کو معلوم کر لیا۔ تو جو حاجتیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر نازل کی ہیں انہیں دوسروں کے سامنے نہ پیش کرو۔ چنانچہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:
39) لا تَرْفَعَنَّ إلى غَيْرِهِ حاجَةً هُوَ مُوْرِدُها عَلَيْكَ
جو حاجتیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر نازل کی ہیں انہیں تم غیر اللہ کے سامنے ہر گز نہ پیش کرو ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: تم کو یہ معلوم ہو چکا ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ کے ماسوا سب وہمی خیال ہے ان کے وجود کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ تمہارے او پر کوئی حاجت نازل کرے جیسے فاقہ ، یا سختی ، یا دوسرے حادثات، تو تم اس کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دو ۔ اور اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت پر چھوڑ دو۔ اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو کر اسے بھول جاؤ۔ اور غیر اللہ کی طرف تعلق اور خوشامد کے ساتھ توجہ نہ کرو ۔ حدیث شریف میں ہے:۔
مَنْ لَمْ يَسْأَلِ اللَّهَ ‌يَغْضَبْ ‌عَلَيْهِ جو شخص اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اوپر ناراض ہوتا ہے ۔

معرفت کی علامت

حضرت ابوعلی دقاق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔
معرفت کی علامت یہ ہے کہ تم اپنی کل حاجتیں کم ہوں یا زیادہ، چھوٹی ہوں یا بڑی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ مانگو۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اللہ تعالیٰ کے دیدار کے مشتاق ہوئے تو کہا:۔
رَبِّ أَرِنِى انْظُرُ إِلَيْكَ اے میرے رب تو مجھ کو دکھا، میں تجھے کود یکھوں۔
اور ایک روزان کو روٹی کی ضرورت ہوئی تو کہا
رب انی لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِير اے میرے رب بیشک میں اس نعمت کا جو تو نے میری طرف نازل کی ہے محتاج ہوں ۔
پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے پیش آنے والی حاجت کو اس کے غیر کے سامنے اس کی عاجزی اور کمزوری کے باوجود پیش کرنے والے پر تعجب ظاہر کرتے ہوئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:۔
. فَكَيْفَ يَرْفَعُ غَيْرُهُ ما كانَ هُوَ لَهُ واضِعاً؟پس جو حاجت اس کیلئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے وہ اس کو اس کے غیر کے سامنے کیسے پیش کرتا ہے۔
غیر اللہ سے مانگنا بے شرمی ہے
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اللہ تعالیٰ نے احکام قہر سے جو حاجت اس پر نازل کیا تو اللہ تعالیٰ کے احسان اور نیکی اور اس کی قدر سے اس کی مہربانی کے جدا نہ ہونے کا علم رکھنے کے باوجود جو شخص وہ حاجت غیر اللہ کے سامنے پیش کرتا ہے تو یہ اس کے شرم کی کمی کی وجہ سے ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ میں اپنے نفس کیلئے اپنے نفس کے فائدے سے مایوس ہو گیا ہوں یعنی بھول گیا ہوں تو نفس کیلئے اپنے غیر کے فائدے سے میں کیسے نا امید نہ ہونگا۔ اور جب میں اپنے غیر کیلئے اللہ تعالیٰ سے امید کرونگا تو اپنی ذات کیلئے کیوں نہ امید کروں گا۔

ایک عجیب نصیحت

اور بعض اہل کشف عارفین رضی اللہ عنہم نے فرمایا ہے ۔ ایسی نیند میں جو بیداری کے مثل تھی۔ یا ایسی بیداری میں جو نیند کی طرح تھی یعنی نیم بیداری یا غنودگی کی حالت میں ہم سے کہا گیا۔ تم اپنا فاقہ ظاہر نہ کرو ورنہ تمہاری بے ادبی اور عبودیت کے حق سے باہر ہونے کی سزا میں ، میں اس کو تمہارے اوپر دو گنا کر دونگا۔ میں نے تم کو اس لئے فاقہ میں مبتلا کیا ہے تا کہ اس کی وجہ سے تم فارغ ہو کر میری طرف متوجہ ہو جاؤ۔ اور اس کی وجہ سے میرے سامنے رؤو ، گڑ گڑاؤ۔ اور اس کے بارے میں میرے اوپر توکل کرو۔ میں نے تم کو فاقہ میں اس لئے پگھلایا ہے کہ تم خالص سونا بن جاؤ۔ تو اب تم اس پگھلانے کو عیب نہ سمجھو ہم نے تمہارے لئے فاقہ ، اور اپنی ذات کیلئے فنا یعنی بے نیازی کا حکم کیا۔ تو اگر تم اپنا فاقہ میرے سپرد کرو گے ۔ تو میں اپنی غنا تمہارے حوالے کرونگا۔ اور اگر تم اسے غیر کے سامنے پیش کرو گے تو میں اپنی امداد کا مادہ تم سے منقطع کر دونگا۔ اور اپنے دروازے سے تم کو بھگانے کے ساتھ تمہارے اسباب کو اپنے اسباب سے میں جدا کر دونگا۔ تو جس شخص کو میں نے اپنی سپردگی میں لیا وہ مالک ہوا اور جس کو میں نے اس کے سپرد کر دیا۔ وہ ہلاک ہوا۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تعجب کی وجہ بیان فرمائی۔
مَنْ لا يَسْتَطيعُ أَنْ يَرْفَعَ حاجَةً عَنْ نَفْسِهِ فَكَيْفَ يَسْتَطيعُ أنْ يَكونَ لَها عَنْ غَيْرِهِ رَافِعًا جو اپنی ذات سے حاجت رفع کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے وہ دوسروں کی حاجت کیسے رفع کر سکتا ہے؟
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ جو شخص اپنی ذات کی اصلاح سے عاجز ہے۔ وہ دوسرے کی اصلاح کس طرح کر سکے گا ؟ طالب اور مطلوب دونوں کمزور ہیں۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے:۔ جو شخص غیر اللہ پر بھروسہ کرتا ہےوہ دھوکے میں ہے کیونکہ دھو کا وہی ہے جو ہمیشہ نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شے ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی ہمیشہ رہنے والا قدیم ہے نہ اس کو کبھی زوال ہوا نہ کبھی زوال ہوگا۔ اور اس کی بخشش اور فضل دونوں دائمی ہیں پس تم صرف اسی پر بھروسہ کرو جس کی بخشش اور فضل تمہارے اوپر ہمیشہ ہے۔ اور بیشک اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا اور اپنی حاجتیں اس کے سامنے پیش کرنا اور کل حادثات اور مصائب میں اس کی طرف رجوع کرنا ، اس کے ساتھ حسن ظن کا سبب ہے جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اشارہ فرمایا:۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں