فنا نہ ہونے والی عزت (باب  نہم)

فنا نہ ہونے والی عزت کے عنوان سے  باب  نہم میں  حکمت نمبر 87 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے جو عزت فنا نہیں ہوتی ہے۔ اس کا سبب بیان فرمایا وہ دنیا میں زہدہے۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
87) الطَّيُّ الحَقيقيُّ أَنْ تَطْويَ مَسافَةَ الدُّنْيا عَنكَ حَتى تَرى الآخِرَةَ أَقْرَبَ إِليْكَ مِنْك.
حقیقی طئ ، یہ ہے کہ تم دنیا کی مسافت (فاصلہ )کو اپنے سے لپیٹ دو۔ یہاں تک کہ تم آخرت کو اپنی طرف اپنے سے زیادہ قریب پاؤ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ طئ کے معنی لپیٹنا ، اور ملانا۔ اس طرح کہ طویل ، کوتاہ اور بڑا چھوٹا ہو جائے۔
اور صوفیائے کرام کے نزدیک طئ کی چار قسمیں ہیں۔ اول طئ زمان وقت اور زمانہ کو لپیٹنا دوم طئ مکان وقت اور زمانہ کولپیٹنا سوم طئ دنیا دنیا کی مسافت کو لپیٹنا چہارم:۔ طئ نفوس: نفسوں کو لپیٹنا
اول:۔ طئ زمان: وہ یہ ہے کہ ایک جگہ میں زمانہ کوتاہ ہو جائے ۔ اور دوسری جگہ میں دراز ہو جائے۔ مثلاً ایک شخص پر ایک مقام میں سالوں گزر جائیں۔ اور دوسرے مقام میں ایک گھڑی ، یا ایک دن ۔ جیسا کہ ایک شخص جمعہ کے روز زوال کے قریب فرات میں غسل کرنے گیا۔ جب غسل کر کے فارغ ہوا۔ تو اپنا کپڑا نہیں پایا۔ تو اس نے ایک راستے پر چلنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ مصر میں پہنچ گیا۔ پھر اس نے وہاں نکاح کیا۔ اور اس کی اولاد پیدا ہوئی ۔ اور وہ وہاں سات سال رہا۔ پھر ایک مرتبہ وہ جمعہ کے روز دریائے نیل میں غسل کرنے کے لئے گیا۔ اور جب غسل سے فارغ ہو کر باہر آیا۔ تو اپنے کو پہلے مقام پر اور اپنے کپڑے کو موجود پایا۔ تو وہ ایک راستے پر چلا۔ تو اب وہ اچانک نماز جمعہ کے قبل بغداد میں پہنچ گیا۔ اور یہ وہی دن تھا ۔ جس دن وہ پہلی مرتبہ فرات میں غسل کرنے کے لئے نکلا تھا۔ اور یہ حکایت طویل ہے۔ جس کو فرغانی نے شرح قصیدہ تائیہ میں بیان کیا ہے۔
دوم:۔ طئ مکان:۔ اس کی مثال یہ ہے: مثلا ایک شخص مکہ معظمہ میں ہے۔ پھر اچانک وہ مکہ معظمہ کے علاوہ دوسرے شہروں میں دیکھا جائے اور اس قسم کے واقعات اولیاء اللہ کے لئے بہت مشہور ہیں۔ کہ ابھی ایک شہر میں ہیں۔ اور ابھی دوسرے شہر میں ۔ حضرت شیخ ابو العباس مرسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ کی قسم! اولیا ئے کرام ہمارے جیسے ایک شخص سے ملنے کے لئے کوہ قاف کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلے گئے اور فوراً اس سے ملے ۔
سوم: طے دنیا:۔ وہ یہ ہے کہ تم اس کے فاصلے کو ، اس میں زہد اختیار کرنے ۔ یعنی اس سے کنارہ کشی کرنے ، اور اس سے غائب ہونے ، اور یقین کامل کے ذریعہ اپنے سے لپیٹ دو۔ یہاں تک کہ آنے والا طویل زمانہ تمہارے نزدیک موجودہ زمانہ ، یا موجودہ زمانہ کی طرح ہو جائے۔ اورعنقریب اس کے متعلق مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا یہ بیان آ گئے آئے گا
لو أشْرَقَ نُورُ الْيَقِينِ فِي قَلْبِكَ لرآيتَ الْأَخِرَةَ أَقْرَبَ مِنْ أَنْ تَرْحَلَ إِلَيْهَا ولرآيتَ الدُّنْيَا وَكِسَفَةَ الْفَنَاءِ ظَاهِرَةٌ عَلَيْهَا
اگر یقین کا نور تمہارے دل میں روشن ہو جائے۔ تو تم آخرت کو اس کی طرف سفر کرنے سے زیادہ قریب پاؤ گے۔ اور دنیا پر فنا کے ٹکڑے کو غالب دیکھو گے ۔
اور عنقریب اس حکمت کے بارے میں پوری بحث انشاء اللہ پھر آئے گی۔
چہارم:۔ طئ نفوس : وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نفوس سے غائب ہو جاتا ہے۔ اور اس سے نفس کا زوال، اور وصال کا کمال ثابت ہوتا ہے۔ اور حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کا بیان اپنے اس قول میں جس کی تشریح آگے آئے گی ۔ فرمایا ہے:
ليسَ الشَّانُ أَنْ تَطْوِىَ لَكَ الْأَرْضَ ، فَإِذَا أَنْتَ بِمَكَّةَ أَوْ غَيْرِهَا مِنَ الْبُلْدَانِ إِنَّمَا الشَّانُ أَنْ تَطْوِيَ عَنْكَ أَوْصَاحَ نَفْسِكَ ، فَإِذَا أَنتَ عِنْدَ رَبِّكَ شان یہ نہیں ہے کہ تم اپنے لئے زمین کو طے کرو۔ کہ ابھی تم مکہ معظمہ میں ہو، اور ابھی دوسرے شہروں میں۔ بلکہ حقیقتا شان یہ ہے، کہ تم اپنے نفس کے اوصاف کو اپنے سے لپیٹ دو۔ تو ابھی تم اپنے رب کے پاس ہو گے۔
یہی حقیقی طئ ہے۔ جو محققین کے نزدیک معتبر ہے ۔ نہ کہ طے زمان، یاطے مکان اس لئے کہ کبھی وہ استدراج ہوتا ہے۔ یا مکر، یا تخیل، یا سحر ۔
پس حقیقی طئ یہ ہے کہ دنیا کی مسافت اپنے سے پوری طرح لپیٹ دو ۔ یہاں تک کہ موت تمہاری طرف تمہارے نفس سے جو تمہارے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے زیادہ قریب ہو جائے ۔
جیسا کہ سید نا حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا:
كُلُّ امْرِى مُصبح فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ
ہر شخص اپنے اہل وعیال میں صبح کرتا ہے۔ اور موت اس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ قریب ہے۔
اور جب تم نفس سے پوری طرح کوچ کر جاؤ گے۔ اس طرح کہ اس کا کچھ شائبہ باقی نہ رہ جائے ۔ تو اس وقت تم عالم ملکوت کی طرف کوچ کر جاؤ گے۔ اور تمہارے سامنے جبروت کے اسرار کھل جائیں گے ۔ حضرت نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے حدیث شریف میں روایت کی گئی ہے: الدنیا خطوةً مُؤْمِن – دنیا مومن کا قدم ہے یعنی وہ اس کو اس میں زہد اختیار کر کے طے کرتا ہے۔
ایک عارف نے فرمایا ہے: تم لوگ اس شخص پر تعجب نہ کرو۔ جو اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر جو کچھ چاہتا ہے اس میں سے نکالتا ہے۔ بلکہ تم لوگ ایسے شخص پر تعجب کرو۔ جو اپنے گر بیان میں ہاتھ ڈالتا ہے اور کچھ نہیں پاتا ہے۔ لیکن اس کے اندر کوئی تغیر اور تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔
حضرت ابو محمد مرتعش سے بیان کیا گیا: فلاں شخص پانی پر چلتا ہے۔ انہوں نے فرمایا: میرے نزد یک درست اور بلند درجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو اس کی خواہشات کی مخالفت میں قائم کر دے۔ تو وہ پانی پر چلنے ، اور ہوا میں اڑنے سے بہت ہی بڑا مرتبہ ہے۔ اور خواہشات کی مخالفت صرف ہرشے میں زہد، اور ہرشے سے غائب ہونے سے ہوتی ہے۔
ہمارے شیخ الشیوخ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: تم لوگوں کو کسی ایسے فقیر کو دیکھ کر خوش نہ ہونا چاہیئے ۔ جو نماز زیادہ ادا کرتا ہے۔ یا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔ یا روزہ زیادہ رکھتا ہے۔ یا زیادہ گوشہ نشین رہتا ہے۔ بلکہ جب کسی ایسے شخص کو دیکھو جو دنیا میں زہد اختیار کر چکا ہے۔ یعنی اس سے کنارہ کش ہو گیا ۔ اور اس سے کوچ کر چکا ہے۔ اور اس کی طرف اس کی کچھ تو جہ باقی نہیں رہی ہے۔ تو تم کو اس کے ساتھ خوش ہونا چاہیئے اگر چہ اس کی نماز ، اور اس کا روزہ ، اور ذکر اور گوشہ نشینی کم ہو ۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اس کا بیان مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کے ضمن میں پہلے ہو چکا ہے۔
مَا قَلَّ عَمَلٌ بَرَزَ مِنْ قَلْبِ زَاهِدٍ) زاہد کے قلب سے جو عمل صادر ہوتا ہے وہ کم نہیں ہے
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب تنویر میں بیان فرمایا ہے:
لَا تَدُلُّ عَلَى فَهُمِ الْعَبْدِ كَفْرَةُ عِلْمِهِ وَلَا مُدَاوَمَتْهُ عَلَى وِرْدِهِ، وَإِنَّمَا يَدُلُّ عَلَى نُورِهِ وَقَهُمِهِ غِنَاهُ بِرَبِّهِ ، وَانْحَيَا شُهُ إِلَيْهِ بِقَلْبِهِ ، وَ تَحَرُّرُهُ مِنْ رَقِ الطَّمْعِ ، وَنَحْلِيَة الورع، وَبِذَالِكَ تَحْسُنُ الْأَعْمَالُ وَتَرَكُوا الْأَحْوَالَ
علم کی کثرت ، درد و وظائف کی مداومت، بندے کی سمجھ کی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اس کے نور اور اس کی سمجھ کی دلیل، اس کا اپنے رب کے ساتھ مشغول ہو کر اس کے ماسوی سے مستغنی ہونا ، اور اپنے قلب کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتا ، اور طمع کی غلامی سے اس کا آزاد ہونا ،اور ورع کے زیور سے اس کا آراستہ ہونا ہے۔ اور اس سے اعمال بہتر ہوتے ہیں۔ اور احوال پاکیزہ ہوتے ہیں ۔ تو ہمارے شیخ الشیوخ نے جو فرمایا۔ وہ درست ہے۔ لیکن اس حقیقت کو اہل ذوق میں سے اہل فن کے سوا دوسرے لوگ نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ اس لئے کہ مجاہدہ ، اور مشاہدہ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ پہلے مجاہدہ ہوتا ہے پھر جب باطن میں مشاہدہ حاصل ہو جاتا ہے تو ظاہری جسمانی اعضاء ساکن ہو جاتے ہیں۔ اور صرف غور و فکر اور حضوری کے ساتھ ادب، باقی رہ جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) پر وہ شخص اعتراض کرتا ہے جو علم طریقت سے جاہل ہونے کے سبب ان کے مفہوم کو نہیں سمجھتا ہے۔ (وبالله التحقيق)


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں