فکر خلوت کے بغیر کامل نہیں (باب اول)

فکر خلوت کے بغیر کامل نہیں حکمت نمبر12

فکر خلوت کے بغیر کامل نہیں کے عنوان سے  باب  اول میں  حکمت نمبر12 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چونکہ ریاء کی باریکیوں اور نفس کی فریب کاریوں سے اکثر فکر کے بغیر رہائی حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اور فکر خلوت کے بغیر کامل نہیں ہوتی ہے۔ لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو بیان کرتے ہوئےفرمایا۔
12) ما نَفَعَ القَلْبَ شَئٌ مِثْلُ عُزْلةٍ يَدْخُلُ بِها مَيْدانَ فِكْرَةٍ.
ایسی خلوت کی طرح کوئی شے قلب کے لئے مفید نہیں ہے جس کے ذریعے قلب فکر کےمیدان میں داخل ہو۔
قلب:۔ اس قوت کا نام ہے جو علم کے قبول کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے

خلوت کے دو معنی ہیں

خلوت کے دو معنی ہیں۔ ایک قلب کا اللہ تعالیٰ کے سوا ہرشے سے علیحدہ ہو کر تنہا ہو جاناہے۔ اور دوسرا، جسم کا آدمیوں سے علیحدہ ہو کر تنہا ہو جانا ہے۔ اور یہاں یہی معنی مراد ہے۔ کیونکہ جب تک جسم تنہا نہیں ہوتا ہے۔ اس وقت تک اکثر اوقات قلب بھی تنہا نہیں ہوتا ہے۔
فکر : اللہ تعالیٰ کی بارگاہ قدس کی طرف قلب کی سیر کو کہتے ہیں اور اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم تصدیق و ایمان کی فکر ۔ دوسری قسم : شہود و عیاں کی فکر اور اس کا بیان آگے آئے گا۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: قلب کے لئے ایسی خلوت سے زیادہ مفید کوئی بھی نہیں ہے جو فکر کے ساتھ ہو۔ اس لئے کہ خلوت پر ہیز کے مثل ہے اور فکر دوا کے مثل ہے اور دوا پر ہیز کے بغیر فائدہ نہیں کرتی ہے اور دوا کے بغیر پرہیز سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی طرح فکر کے بغیر خلوت میں کچھ بھلائی نہیں ہے اور خلوت کے بغیر فکر میں کوئی ترقی اور بلندی نہیں ہے۔ اس لئے کہ خلوت سے مقصود قلب کا فارغ ہونا ہے۔ اور فارغ ہونے سے مقصد قلب کا سیر کرنا اور فکر میں مشغول ہونا ہے۔ اور قلب کے فکر میں مشغول ہونے سے مقصد علم کا حاصل کرنا، اور قلب میں اللہ تعالیٰ کا علم قائم ہونا ہے۔ اور قلب میں اللہ تعالیٰ کا علم قائم ہونا ہی قلب کی دوا، اور اس کے درست ہونے کی علامت ہے ۔ اور اسی کا نام اللہ تعالیٰ نے قلب سلیم رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قیامت کی شان میں فرمایا ہے:۔
يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ آتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ اس دن نہ مال کچھ فائدہ پہنچائے گا، نہ اولاد ۔ مگر وہ شخص فائدے میں ہو گا جو اللہ تعالیٰ کےپاس قلب سلیم کے ساتھ آئے گا۔
بزرگوں نے فرمایا ہے:۔ قلب، معدہ کی طرح ہے۔ جب اس پر اخلاط غالب ہوتے ہیں تو وہ بیمار ہو جاتا ہے۔ اور پر ہیز کے سوا کوئی شے اس کو فائدہ نہیں کرتی ہے۔ پر ہیز اس کے مادے اوراخلاط کی زیادتی کو روکتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:۔ الْمَعِدَةُ ‌بَيْتُ الداء وَالْحِمْيَةُ رَأْسُ الْدْوَاءِ
معدہ بیماری کا گھر ہے۔ اور پر ہیز دوا کی جڑ ہے
اسی طرح قلب ہے۔ جب اس کے اوپر خواطر ( وسو سے ) غالب اور محسوسات مسلط ہوتےہیں ۔ تو وہ بیمار ہو جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات مردہ ہو جاتا ہے۔ لہذا وسوسوں سے پر ہیز ، اور وسوسے پیدا ہونے کی جگہوں سے بھاگنے کے سوا اس کو کوئی شے فائدہ نہیں کرتی ہے۔ اور دسو سے پیدا ہونے کی جگہ لوگوں سے میل جول ہے۔ لہذا جب وہ سب لوگوں سے علیحدہ ہو کر تنہا ہو جاتا ہے۔ اور فکر کو استعمال کرتا ہے۔ تو اس کی دوا کامیاب ہوتی ہے۔ اور اس کا قلب درست ہو جاتا ہے۔ ورنہ وہ بیمار ہی رہ جائے گا۔ اور وہ اسی قلب کو جو شک اور وسوسے کی بیماری میں مبتلا ہے، لے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت چاہتے ہیں۔
حضرت جنید نے فرمایا ہے. بہترین مجلس ، توحید کے میدان میں فکر کے ساتھ بیٹھنا ہے۔
حضرت شیخ ابو الحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: ۔ خلوت کا پھل، احسان کی بخششوں کے ساتھ کامیابی ہے۔ اور وہ پھل چار ہیں۔ اول: حجاب دور ہونا۔ دوم: رحمت نازل ہوئی۔سوم محبت پیدا ہونی۔ چہارم ۔ کلام میں سچائی
اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے:
فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَهُ پس جب وہ ان لوگوں اور ان کے باطل معبودوں سے علیحدہ ہو گیا۔ تو ہم نے اس کو نعمتیں عطا فرمائیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں