قضاو قدر کا حکم (باب دوم)

قضاو قدر کا حکم حکمت نمبر22

قضاو قدر کا حکم کے عنوان سے  باب  دوم میں  حکمت نمبر22 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

چھٹا ادب۔ قضا و قدر کے فیصلے کو تسلیم کرنا، اور اس پر راضی رہنا ہے ۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:-
22) مَا مِنْ نَفَسٍ تُبْدِيهِ إِلاَّ وَلهُ قَدَرٌ فِيكَ يُمْضِيهِ.
تمہارے ہر سانس کے وقفے میں تمہارے بارے میں قضا و قدر کا کوئی نہ کوئی حکم صادر ہے ۔

تقدیر

قدر: وہ علم ہے جو مخلوقات کے پیدا ہونے سے پہلے ہو چکا ہے۔ اور کل اشیاء کے وقتوں ، اور ان کی جگہوں، اور ان کی مقداروں اور ان کے افراد کی تعداد، اور ان کو پیش آنے والی کیفیتوں ، اور ان پر نازل ہونے والی آفتوں کا مکمل علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ لہذا اے انسان! جب تم کو یہ معلوم ہو گیا کہ تمہارے ہر سانس پر قدر کا حکم نافذ ہے۔ اور تم سے اور تمہارے غیر سے جو سانس بھی رکھتا ہے اس کا علم اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اور اس پر اس کا قلم چل چکا ہے۔ تو تمہارے اوپر لازم ہے کہ تم قدر کے جاری کئے ہوئے ہر حکم پر راضی رہو۔ کیونکہ تمہارے سانس شمار کئے ہوئے ہیں اور تمہارے طرفات ولحظات (سیکنڈومنٹ) گھرے ہوئے ہیں۔ لہذا جب تمہاری آخری سانس ختم ہو جائے گی۔ تو تم اپنی آخرت کی طرف کوچ کر جاؤ گے۔ پس جب تمہارے سانس گنے ہوئے ہیں تو قدموں، اور خیالوں اور ان کے علاوہ دوسرے تصرفات کے بارے میں تمہارا کیا حال ہو گا۔ اسی حقیقت کے بارے میں ایک عارف کلام ہے:۔
مَشِينَا ھاخَطا كُتِبَتْ عَلَيْنَا وَمَنْ كُتِبَتُ عَلَيْهِ خَطَا مَشَاهَا
ہم اتناہی قدم چلے جتنا ہمارے مقدر میں لکھا گیا تھا اور جس شخص کے مقدر میں جتنا لکھا گیا ہے وہ اتنا ہی چلے گا۔
وَمَنْ قُسِمَت مَنِيَّتُهُ بِأَرْضِ فَلَيْسَ يَمُوتُ فِي أَرْضِ سِوَاهَا
اور جس شخص کی موت جس سرزمین میں مقدر ہو چکی ہے وہ اس سرزمین کے سوا دوسری جگہ نہیں مرے گا۔

رضا کی حقیقت

رضا کی حقیقت یہ ہے کہ خطروں اور آفتوں کا سامنا خندہ پیشانی سے کرے۔
تسلیم کی حقیقت یہ ہے کہ تکلیف اور آرام کو برابر سمجھے۔ اس حیثیت سے کہ دونوں میں سے کسی ایک میں اپنے اختیار سے نہ قائم ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے سپرد کرے۔ اور یہ ان کاملین کا مقام ہے جو فنا میں قائم ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے ذکر سے فیض یاب کرے۔ اور ہمیں ان کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں