قلب اورجسم کی حرکت (بارھواں باب)

قلب اورجسم کی حرکت کے عنوان سے بارھویں باب میں  حکمت نمبر 118 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ بعض اوقات میں نماز کے مقرر کرنے میں یہ راز ہے کہ نفس نماز کے لئے مشتاق ہو۔ اور اس میں راحت اور سکون پائے ۔ تا کہ نماز میں خشوع ، اور حضور، اور آنکھ کی ٹھنڈک حاصل ہو۔ بخلاف اس کے کہ اگر وہ ہمیشہ ہوتی۔ تو نفس کو اس کا شوق نہ ہوتا۔ اور اکثر اوقات پریشان ہوتا ، اور اکتا تا۔ تو اس کو نامکمل طریقے پرادا کرتا۔ اور تمہاری ذات سے مقصود قلب کی حرکت ہے۔ نہ کہ جسم کی حرکت ۔
حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:۔ إِنَّ اللَّهَ لَا يَنظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَلَا إِلَى أَعْمَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ
اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کی طرف دیکھتا ہے نہ تمہارے اعمال کی طرف۔ بلکہ وہ تمہارے قلوب کی طرف دیکھتا ہے ۔
اجسام کی حرکت میں کچھ شان ( عظمت ) نہیں ہے۔ بلکہ شان صرف ارواح کے خضوع میں ہے پس تمہارے اوپر بعض اوقات میں نماز کے مقرر کرنے میں یہ راز ہے کہ تمہارا مقصد نماز کا قائم کرنا ہو۔ یعنی اس کو مضبوطی کے ساتھ ، اس کے ظاہری و باطنی حقوق کی نگہداشت کے ساتھ قائم کرنا۔ نہ کہ قائم کئے بغیر صرف نماز کی شکل ظاہر کرنا۔ کیونکہ ظاہری شکل، خالی مردہ ہے۔ اس لئے سزا سے زیادہ قریب ہے۔
حضرت امام قشیری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے. اقامت صلوۃ: اس کے ارکان اور سنتوں کے ساتھ قائم ہونا ہے۔ پھر نماز کے دیکھنے سے اس ذات پاک کے مشاہدے میں غائب ہو جانا ہے۔جس کے لئے نماز ادا کرتا ہے۔ پھر امر کے جو احکام اللہ تعالی کی طرف سے اس کے اوپر جاری ہوتے ہیں، اس کی حفاظت کرنا۔ اس حال میں کہ اس کے دیکھنے سے محو ہو جائے ۔ تو ان کے نفوس کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ اور ان کے قلوب وصل کی حقیقتوں میں مضبوطی سے قائم ہوں ۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے: اقامت صلوۃ۔ اللہ عزوجل کے ساتھ ، سر کی حفاظت کے ساتھ نماز کے حدود کی حفاظت ہے۔ اس طرح کہ تمہارے سر میں اللہ تعالی کا ما سوا کوئی حرکت نہ پیداکرے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کے پاس فرمان لکھا ۔ میرے نزدیک تمہارے تمام کاموں سے اہم کام نماز ہے۔ تو جس نے اس کو یا درکھا۔ اور اس کی حفاظت کی۔ وہ اس کے علاوہ دوسرے احکام کی بھی حفاظت کرنے والا ہے اور جس شخص نے نماز کو ضائع کر دیا۔ وہ اس کے علاوہ دوسرے احکام کو بھی ضائع کرنے والا ہے۔ یہ حضرت شیخ زروق سے روایت ہے۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی وجہ بیان کی، کہ نماز کا قائم کرنا مقصود ہے۔ نہ کہ نماز کی ظاہری شکل ۔ چنانچہ فرمایا:
فَمَا كُلُّ مُصَلّ مقیم ہر نمازی قائم کرنے والا نہیں ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اقامت کے معنی لغت میں مکمل کرنا، اور مضبوط کرنا ہے۔ آقام فلان دَارَهُ فلاں شخص نے اپنا گھر قائم کیا، یہ بات اس وقت کہی جاتی ہے۔ جب کوئی شخص اپنا گھر مکمل تیار کر کے اس میں اس کی ضرورت کی سب چیزیں بنا لیتا ہے۔ تو نماز کا قائم کرنا، اس کا مضبوط اور مکمل کرنا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔ اور اقامت کی ضد نقصان اور کمی ہے ۔ تو ہر نمازی نماز کا قائم کرنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ بہت سے نمازی ایسے ہیں جن کو ان کی نماز سے تکان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔
بعض احادیث میں وارد ہے ۔
مَنْ لَمْ تَنْهَهُ صَلَاتُهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ‌لَمْ ‌تَزِدْهُ ‌مِنَ ‌اللَّهِ إِلَّا بُعْدًا
جس شخص کو اس کی نماز بے حیائی، اور برائی سے نہیں روکتی ہے ۔ ایسی نماز اس کو اللہ تعالی سے زیادہ دور کر دیتی ہے ۔
اور دوسری حدیث میں حضرت نبی کریم ﷺ سے روایت کی گئی ہے:
إِذَا صَلَّى الْعَبْدُ فَلَمُ يُتِمُّ رُكُوعَهَا وَلَا سُجُودَهَا وَلَا خُشُوْعَهَا لُفَّتْ كَمَا يُلَفُ الثَّوْبُ الْخَلْقُ ثُمَّ يُضْرَبُ بِهَا وَجْهُهُ – أَوْ كَمَا قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ
جب بندہ نماز پڑھتا ہے لیکن اسکے رکوع وسجود و خشوع کو پورا نہیں کرتا ہے۔ ایسی نماز پرانے کپڑے کی طرح لپیٹی جاتی ہے۔ پھر اس نماز پڑھنے والے کے منہ پر مار دی جاتی ہے ۔ یا حضرت نبی کریم ﷺ نے جس طرح فرمایا ہو۔
پس نماز پڑھنے والے بہت ہیں۔ اور قائم کرنے والے کم ہیں ۔ اہل اجسام بہت ہیں اور اہل قلوب کم ہیں ۔
حضرت ابو بکر بن العربی معافری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے. میں نے ایسے ہزاروں آدمیوں کو دیکھا ہے جو نماز کی حفاظت کی کرتے ہیں ، میں ان کا شمار بھی نہیں کر سکتا ہوں لیکن ایسے لوگ جوخشوع اور حضور کے ساتھ نماز کی حفاظت کرتے ہیں ۔ میں نے پانچ آدمی بھی نہیں پایا۔
حضرت شیخ ابو العباس مرسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ جتنی جگہوں میں مصلین کا ذکر تعریف کے مقام میں کیا گیا ہے۔ تو در حقیقت تعریف کے مقام میں صرف انہی لوگوں کا ذکر آیا ہے ، جو نمازکو قائم کرتے ہیں۔ کسی جگہ پر اقامت کے لفظ کے ساتھ ذکر آیا ہے اور کسی جگہ ایسے مفہوم کے ساتھ ذکر آیا ہے جوا قامت کی طرف لوٹتا ہے۔
اللہ سبحانہ تعالی نے فرمایا ہے:
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوة جولوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ اور نماز کو قائم کرتے ہیں۔
ربِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوة اے میرے رب ! تو مجھے نماز کا قائم کرنے والا بنا ۔
واقام الصلوة اور نماز کو قائم کیا وَ الْمُقِيمَى الصَّلوة اور نماز کے قائم کرنے والے اور جب غفلت کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کا ذکر کیا تو فرمایا۔ (فَوَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ) پس خرابی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔
اور اللہ تعالی نے یہ ہیں فرمایا فَوَيْلٌ لِلْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ نماز قائم کرنے والوں کیلئے خرابی ہے اور تمہیں معلوم ہونا چاہیئے ، کہ نماز میں خشوع کے تین درجے ہیں۔
پہلا درجہ ۔ خوف ، اور عاجزی، اور ذلت کا خشوع ہے۔ اور یہ عابدین، وزاہدین کے لئے ہے۔
دوسرا درجہ:۔ تعظیم اورہیبت ، اور بڑائی کا خشوع ہے۔ اور یہ مریدین سالکین کے لئے ہے۔
تیسرا درجہ خوشی ، اور سرور، اور حضور کا خشوع ہے۔ اور یہ عارفین میں سے واصلین کے لئے ہے۔ اور اس مقام کا نام قرة العین ( آنکھ کی ٹھنڈک ) ہے۔ جیسا کہ اس کا بیان انشاء اللہ آگےآئے گا۔
پھر تم یہ جان لو ۔ کہ جس نماز کے ساتھ خشوع ، اور حضور نہ ہو۔ وہ صوفیائے کرام کے نزدیک باطل اور علمائے کرام کے نزدیک غیر مقبول ہے۔ صوفیائے کرام نے فرمایا ہے۔ بندے کے لئے اس کی نماز میں اتنا ہی حصہ ہے جتنے میں اس کا قلب حاضر رہا۔ تو کبھی اس کے لئے اس کی نماز کا چوتھائی حصہ، اور کبھی نصف حصہ نماز میں اس کے حضور قلب کے اندازے سے ہوتا ہے۔ خشوع، پیدا ہونے میں مدد کرنے والی چیزوں میں سب سے بڑی اور اہم دنیا میں زہد( ترک دنیا) ہے۔ یہی سب سے بڑی دوا اور اکسیر اعظم ہے۔ اس لئے کہ یہ محال ہے کہ تمہارے پاس ابلیس کی لڑکی ہو، اور اس کا باپ اس کو دیکھنے کے لئے نہ آئے ۔ تو اخلاص پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔ جب تک قلب میں خواطر (وسو سے ) موجود ہوں ۔ اور وسوسے کم بھی ہوں ۔ تو بھی بہت ہیں ۔ تو جس شخص کے اندر دنیا کا کچھ حصہ بھی باقی ہے۔ تو بلا شبہ اس کے مطابق دسو سے اس کے دل میں آئیں گے۔ کیونکہ یہ محال ہے کہ تمہارے قلب میں دنیا کا درخت موجود ہو ۔ اور تم وسوسوں سے محفوظ رہو۔ اور اس کی مثال یہ ہے : مثلا تمہارے قریب باغ میں ایک درخت ہو۔ اس پر چڑیاں جمع ہوتی ہوں ۔ اور وہ تم کو اپنی آوازوں سے خوفزدہ ، اور پریشان کرتی ہوں تو جب تم ان کو پریشان کر کے بھگاتے ہو ۔ تو وہ پھر لوٹ آتی ہیں۔ تو وہ ہر گز تم سے اس وقت تک دور نہیں ہوں گی جب تک تم اس درخت کو نہ کاٹ دو گے ۔ تو جب تم اس درخت کو کاٹ دو گے ان کی آوازوں سے نجات پا جاؤ گے۔ اسی طرح جب تک دنیا ہاتھ میں ہے اور ہاتھ اس سے بھرا ہوا ہے۔ قلب اس کے وسوسوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا ہے۔ جب تک قلب اس سے نکل نہ جائے۔ اور جب قلب اس سے نکل جائے گا۔ تو وہ اس کی برائیوں ، اور شرارتوں سے محفوظ ہو جائے گا ۔ اللہ تعالی اعلم
نیز خشوع پیدا ہونے میں مدد کرنے والی چیزوں میں :۔ قلب اور جسم کے ساتھ اللہ تعالی کے ذکر کی کثرت ہے۔ اور ہمیشہ طہارت (پا کی) کو قائم رکھنا۔ اس لئے کہ ظاہر کو باطن سے تعلق ہوتا ہے۔ اس لئے جب ظاہر پاک ہوتا ہے تو باطن بھی پاک ہوتا ہے ۔ وباللہ التوفیق۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں