قید خانہ وجودسے آزادی (باب ششم)

قید خانہ وجودسے آزادی کے عنوان سے  باب  ششم میں  حکمت نمبر54 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تیسری قسم واردالوصال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
54) أَوْرَدَ عَلَيْكَ الْوَارِدَ لِيُخْرِجَكَ مِنْ سِجْنِ وُجُودِكَ إِلَى فَضَاءِ شُهُودِكَ .
الله تعالى نے تمہارے اوپر اپنا نور وارد کیا ۔ تا کہ تم کو تمہارے وجود کے قید خانہ سے نکال کر تمہارے مشاہد ہ کےوسیع فضاء میں پہنچا دے ۔
یعنی تمہارے اوپر وارد اقبال کی ہوا ئیں چلانے کے بعد، وارد الوصال کو وارد کیا ۔ تا کہ تم کو تمہارے وجود کے دیکھنے کی قید سے نکال کر تمہارے رب کے مشاہدہ کی فضاء میں پہنچائے ۔ کیونکہ تمہارا اپنے وجود کو دیکھنا، اللہ تعالیٰ کے مشاہدہ سے تم کو روکنے والا ہے۔ اس لئے کہ یہ محال ہے کہ تم اس کا مشاہدہ کرو۔ اور اس کے ساتھ اس کا ماسوا کا بھی مشاہدہ کرو تمہارا وجود ایسا گناہ ہے کہ اس کے مشابہ دوسرا گناہ سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ حضرت جنید نے خوب فرمایا ۔
وُجُودِى أَنْ أَغَيْبَ عَنِ الْوُجُودِ بِمَا يَبْدَؤُ عَلَىَّ مِنَ الشُّهُودِ
میرا وجود یہ ہے کہ میں اپنے وجودسے اس شہود کے ساتھ جو مجھ پر ظاہر ہوتا ہے غائب ہو جاؤں۔
پس نفس سے فنا ہونا اور نفس کا زوال مخلوق سے فنا ہونے اور اس کے زوال سے زیادہ دشوار ہے۔ تو جب نفس فنا اور زائل ہو جاتا ہے۔ تو مخلوق بھی فنا ہو جاتی ہے۔ اور اس کا کچھ نشان باقی نہیں رہتا ہے۔ اورکبھی مخلوق فنا ہو جاتی ہے۔ لیکن نفس کا کچھ حصہ باقی رہ جاتا ہے۔ اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے مخلوق کی قید غلامی کو انسان کے وجود کی قید پر مقدم رکھا ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں