محاضرہ ،مراقبہ اور مشاہدہ (باب  دہم)

محاضرہ ،مراقبہ اور مشاہدہ کے عنوان سے  باب  دہم میں  حکمت نمبر 91 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اس کو حضر ت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے
91) كَفَى الْعَامِلِينَ جَزَاءً مَا هُوَ فَاتِحُهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فِى طَاعَتِهِ ، وَمَا هُوَ مُورِدُهُ عَلَيْهِمْ مِنْ وُجُودِ مُؤانَسَتِهِ.
عمل کرنے والوں کے لئے وہی صلہ کافی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ اپنی طاعت کی حالت میں ان کے قلوب پر منکشف کرتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں عمل کرنے والوں کے قلوب پر عمل کرنے کی حالت میں اللہ تعالیٰ جو کچھ منکشف کرتا ہے وہ تین ہیں۔ اول : محاضرہ۔ دوم: مراقبہ سوم : مشاہدہ ۔
پس محاضرہ: طالبین کے لئے ۔ اور مراقبہ : – سائرین کے لئے اور مشاہدہ واصلین کے لئے ہے۔ یعنی محاضرہ: عموم کے لئے ۔ اور مراقبہ خصوص کے لئے ۔ اور مشاہدہ: خصوص الخصوص کےلئے ہے اور تینوں کا نام خشوع ہے۔
ایک عارف نے فرمایا ہے:۔ خشوع کمال ہیبت کے سامنے سرگوشی کی بساط پر خاموش ہونا ، اور کشف کی طاقت کے ماتحت پگھل جانا، اور تجلی کے غلبہ کے وقت محو ہو جانا ہے۔ اور تیسر ا مقام آنکھ کی ٹھنڈک کے ساتھ مخصوص ہے۔
حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے : بندہ طاعت کی حالت میں جو کچھ پاتا ہے۔ وہ تین ہے:
اول طاعت کی طرف اس کی سبقت ، اور توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس کی انسیت ۔ اور اس سے رقت طاری ہوتی اور خشوع پیدا ہوتا ہے۔
دوم: اللہ تعالیٰ کے سامنے چاپلوسی ، اور خوشامد کا پایا جاتا۔ اور اس سے طاعت میں شیرینی پیدا ہوتی ہے۔ جس کے سبب وہ ہرشے کو بھول جاتا ہے۔
سوم: سمجھ اور علمی فوائد ، اور لدنی الہامات کا حاصل ہونا ۔ اس کے باعث وہ کل اشیاء کو ترک کر دیتا ہے۔
ایک عارف نے فرمایا ہے۔ دنیا میں ایک ایسی جنت ہے کہ جو اس میں داخل ہو جاتا ہے ، وہ نہ آخرت کی جنت کا مشتاق ہوتا ہے نہ کسی دوسری شے کا ۔ نہ اسے کبھی وحشت ہوتی ہے۔ لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ عارف نے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔
ایک عالم نے فرمایا ہے: اس دنیا میں جنت کی نعمتوں سے مشابہ کوئی چیز نہیں ہے۔ مگر مناجات کی وہ شیرینی، جس کو خوشامد کرنےوالے رات کے وقت اپنے قلوب میں پاتے ہیں۔
ایک عارف فرماتے تھے: دنیا میں دوست کے سامنے خوشامد ، اور قریب یعنی اللہ تعالیٰ سے مناجات ( سر گوشی) دنیا کی چیزوں میں سے نہیں ہے۔ بلکہ وہ جنت کی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ظاہر کر دیا ہے۔ اور اس کو صرف اللہ والے ہی جانتے ہیں۔ اور ان کے قلوب کو اسی میں راحت ملتی ہے۔
اور ان امور میں سے پانچواں امر : وہ پھل ہیں جو ان کو عمل کے بعد حاصل ہوتے ہیں۔ اور اس کو حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے:
وَمَا هُوَ مُورِدُهُ عَلَيْهِمْ مِّنْ وُجُودِ مُوَانَسَيْهِ اور اللہ تعالیٰ کی وہ انسیت جو اللہ تعالیٰ عمل کرنے والے پر وارد کرتا ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: وہ انسیت جس کو عامل عمل کرنے کے بعد پاتا ہے۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔ اول ذکر کی انسیت اور وہ فنافی الافعال والوں کے لئے ہے۔ دوم قرب کی انسیت: وہ فنافی الصفات والوں کے لئے ہے۔
سوم: شہود کی انسیت: وہ فنافی الذات والوں کے لئے ہے۔ پس اول : اہل اسلام کے لئے ۔ دوم: اہل ایمان کے لئے ۔ سوم: اہل احسان کے لئےہے۔
پہلی انسیت: آدمیوں سے نفرت اور بھاگنے کا سبب ہوتی ہے۔ دوسری انسیت پر ہیز کرتے ہوئے آدمیوں سے قریب رہنے کا سبب ہوتی ہے۔ تیسری انسیت آدمیوں سے صحبت اور میل جول کا سبب ہوتی ہے اس لئے کہ وہ ان لوگوں سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ لیکن وہ لوگ اس سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ تو پہلی قسم کے شخص کے لئے اس کی کمزوری کی وجہ سے عزلت مناسب ہے۔ اور دوسری قسم کے شخص کے لئے حفاظت اور پر ہیز کے ساتھ صحبت موزوں ہے تا کہ قوت کے ساتھ علم حاصل کرے ۔ پس وہ ان لوگوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ لیکن وہ لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے قلب کے ساتھ ان لوگوں سے دور رہتا ہے۔
اور تیسری قسم کے شخص کے لئے قوت کے ساتھ ثابت و قائم ہونے کی وجہ سے محبت ہی لائق ہے۔ کیونکہ وہ ہرشے سے حصہ حاصل کرتا ہے۔ لیکن اس سے کوئی شے حصہ حاصل نہیں کر سکتی ہے۔ ہرشے کی کدورت اس کے ذریعہ صاف ہو جاتی ہے لیکن اس کی صفائی کی کوئی شے مکدر نہیں کرتی ہے۔ اور ذکر کی انسیت:۔ قرب کی انسیت تک پہنچاتی ہے۔ اور قرب کی انسیت:۔ شہود کی انسیت تک پہنچاتی ہے۔ کیونکہ جو شخص کسی گھاٹی پر چڑھتا ہے تو وہ اس کو اپنے بعد کی آرام تک پہنچا دیتی ہے۔
ایک عارف نے فرمایا ہے: طاعتوں میں سے کوئی طاعت ایسی نہیں ہے جس کے ساتھ مشقت اورسختی کی گھاٹی نہ ہو۔ اور اس میں طاعت کرنے والے کو صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو جو شخص اس کی سختی پر صبر کرتا ہے۔ وہ آرام اور آسانی تک پہنچ جاتا ہے۔ اور وہ گھاٹی نفس کا مجاہدہ ، اور خواہش کی مخالفت ہے۔ پھر اللہ کی قسم، دنیا کے ترک کرنے میں مکا بدہ یعنی سختیوں کا برداشت کرنا لازمی ہے۔ پھر اس کے بعد طاعت کی لذت اور معرفت کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔
پس اے مرید! تمہارے لئے یہ مناسب ہے کہ تم ان امور میں سے کسی چیز کی خواہش نہ کرو۔ جو اللہ تعالیٰ اعمال کے صلے میں تم کو عطا کرتا ہے۔ خواہ وہ نقد ہو یا ادھار ۔ کیونکہ یہ تمہارے اخلاص میں کمی کا باعث، اور تمہاری عبودیت کی سچائی کو ختم کرنے والی ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں