محرومی میں تکلیف کی وجہ (باب  دہم)

محرومی میں تکلیف کی وجہ کے عنوان سے  باب  دہم میں  حکمت نمبر 94 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
روحانی قوت کا ذائقہ صرف وہی لوگ چکھتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی سمجھ رکھتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا:
94) إنَّما يُؤلِمُكَ المَنْعُ لِعَدَمِ فَهْمِكَ عَنِ اللهِ فيهِ.
منع یعنی محروی تمہیں اس لئے تکلیف دیتی ہے کہ تم محرومی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سمجھ نہیں رکھتے ہو ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سمجھ ہونا: اس کی معرفت کے موجود ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ اور معرفت کامل نہیں ہوتی ہے جب تک اہل معرفت جلال و جمال منع و عطا، بسط وقبض میں معرفت حاصل نہ کرے۔ لیکن اگر صرف جمال میں پہچانتا ہے تو یہ ان عوام کی معرفت ہے جو اپنے نفس کے بندے ہیں ۔ تو اگر ان کو عطا کیا جاتا ہے تو وہ راضی رہتے ہیں۔ اور اگر نہ عطا کیا جائے تو وہ ناراض ہوتےہیں۔ نیز معرفت کا نتیجہ قضا و قدر کے فیصلوں پر راضی رہنا، اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، یعنی رضاوتسلیم ہے۔
اورعشق ومحبت کا نتیجہ سختیوں اور امتحانوں کے وقت صبر کرنا ہے۔ کسی عارف نے فرمایا ہے:
تَدَّعِي مَذْهَبَ الْهَوَى ثُمَّ تَشْكُوا أَيُّ دَعْوَاكَ فِي الْهَوَى قُلْ لِي أَیْنَا
تم عشق کے مذہب کا دعوی کرتے ہو اور پھر شکایت کرتے ہو۔ محبت میں تمہارا کیا دعوی ہے مجھ کو بتاؤ۔
لَوْ وَجَدْنَاكَ صَابِراً لِهَوَانَا لَمنَحْنَاكَ كُلَّ مَا تَتَمَنَّى
اگر ہم تمہیں اپنے عشق میں صبر کرنے والا پاتے تو ہم تم کو وہ ساری چیز میں عطا کر دیتے جس کی تم تمنا کرتے ہو۔
پس کوئی محبت کرنے والا اس کی محبت میں، اور کوئی عارف اس کی معرفت میں سچا نہیں ہو سکتا ہے جب تک اس کے نزدیک منع وعطا ،قبض وبسط، فقر وغناء عزت وذلت تعریف اور برائی ، ہوا اورنہ ہونا، رنج اور خوشی ، برابر نہ ہو ۔ یعنی وہ اپنے محبوب کو ہر حال میں پہچان لے۔ جیسا کہ ایک عارف نے فرمایا ہے
میرا حبیب اور محبوب ہر حالت میں ہے۔ تو ہر حال میں اس سے راضی رہے۔ اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔ تو اگر ہر حال میں اپنے اندر رضا و تسلیم کو نہ پائے تو عشق و محبت کے مرتبے کا دعوی نہ کرے اور اپنی قدر و منزلت کو پہچانے اور اپنی حد سے تجاوز نہ کرے ۔ اور اللہ والوں کے مرتبوں کی چوری کرنے سے باز رہے۔ جو شخص اس چیز کا دعوی کرتا ہے جو اس میں نہیں ہے تو امتحان کے گواہ اس کو رسوا کر دیتے ہیں۔
حضرت ابن فارض رضی اللہ عنہ کا شعر ہے:
فَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَحْيَا سَعِيداً فَمُتْ بِهِ شَهِيدًا وَإِلَّا فَالغَرَامَ لَهُ أَهْل
اگر تم نیک بخت ہو کر زندہ رہنا چاہتے ہو تو اس کی شہادت دیتے ہوئے مر جاؤ ورنہ تم تباہی کےمستحق ہو گئے ۔
حضرت ابراہیم خواص رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: فقیر کے لئے فقر درست نہیں ہوتا جب تک اس کے اندر دو خصلتیں نہ ہوں۔ اول : اللہ تعالیٰ پر وثوق کامل (پورا بھروسہ)
دوم: اللہ تعالیٰ کا ان چیزوں میں شکر گزار ہونا۔ جو اس سے روایت کی گئی ہیں ۔ اور جنکے ذریعے دنیا کے دوسرے لوگوں کی آزمائش کی گئی ہے۔
ایک عارف سے دریافت کیا گیا: آپ کے نزدیک زہد کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جب ہم پاتے ہیں تو شکر کرتے ہیں اور جب ہم کھو دیتے ہیں تو صبر کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: ہمارے خیال میں بلخ کے کتوں کا بھی یہی حال ہے۔ پھر انہوں نے فرمایا: سنو! جب ہم کھو دیں تو شکر کریں۔ اور جب پائیں تو صبر کریں۔ پس یہی اللہ تعالیٰ کی سمجھ ہے۔ کہ وہ کھو جانے کے وقت شکر کرتا ہے۔ یعنی کھو جانے کو نعمت ، اور فاقہ کو غنا سمجھتا ہے۔ اس لئے کہ وہ اس میں بخشش اور اسرار کو پاتا ہے۔ اور اسی وجہ سے وہ اس کے بعد واردات وانوار کے نازل ہونے کا انتظار کرتا ہے ۔ اور یہ شواغل ( غافل کرنے والی چیزیں ) اور اغیار سے فراغت کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اور اسی سے احوال پاکیزہ ہوتے ہیں۔ اور اعمال کی عظمت زیادہ ہوتی ہے۔ اور اس کا مالک قبولیت اور توجہ کا اہل ہوتا ہے ور نہ اعمال کی ظاہری شکل کا عدم قبولیت کے ساتھ کوئی اعتبار نہیں ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں