مخلوق کی جہالت کا خوف (گیارھواں باب)

مخلوق کی جہالت کا خوف کے عنوان سے گیارھویں باب میں  حکمت نمبر 107 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جو اپنے نفس کی بھلائی چاہتا ہے تو تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جہالت کا خوف نہیں ہے۔ بلکہ تمہارے لئے صرف خواہش کے غلبے اور مخلوق کی جہالت کا خوف ہے۔ جیسا کہ اس کی طرف مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:
107) لا يُخَافُ عَلَيْكَ أنْ تَلْتَبِسَ الطُّرُقُ عَلَيْكَ؛ وَإنَّمَا يُخَافُ عَلَيْكَ مِنْ غَلَبَةِ الهَوَى عَلَيْكَ.
تمہارے لئے اس بات کا خوف نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے تمہارے لئے مشتبہ ہو جائیں، بلکہ تمہارے لئے صرف تمہارے اوپر تمہاری خواہش کے غلبے کا خوف ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے اپنے تک پہنچنے کا راستہ ہمارے لئے واضح فرما دیا ہے تو ہمارے لئے شریعت کے نشانات طریقت کے مینار ، حقیقت کے انوار واضح کر دیئے ہیں۔ اور اسلام کی شریعت اور ایمان کے قاعدے، اور احسان کے مقامات مقرر کر دیئے ہیں ۔ تو حضرت رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والی کسی بھی شے رہنمائی باقی نہیں چھوڑی اور اللہ تعالیٰ سے دور کرنے والی کسی شے سے ڈرانا بھی نہیں چھوڑا۔ بندوں کی ہدایت اور سیدھے راستے کے ظاہر کرنے میں کوئی کوشش اٹھا نہیں رکھی۔ اور آنحضرت ﷺ نے اس دنیائے فانی سے اللہ تعالیٰ کی طرف اس وقت تک کو چ نہیں فرمایا، جب تک کہ لوگوں کو دین قیم اور صراط مستقیم پر قائم نہیں کر دیا ۔ اور ایسے روشن اور واضح طریقے پر قائم فرمایا کہ اس سے اندھے کے سوا کوئی گمراہ نہیں ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اليومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاْتمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا۔ اور میں نے تمہارے اوپر اپنی نعمت پوری کر دی۔ اور میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ دین کے اندر کوئی مجبوری نہیں ہے گمراہی سے ہدایت واضح اور ممتاز ہوگئی ہے۔
اور حضرت رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے:
لَقَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ میں نے تم لوگوں کو واضح اور مضبوط دین حنیفی پر چھوڑا ہے ۔
اور ایک روایت میں ہے (عَلَى الْمِلَّةِ الْبَيْضَاءِ لَيْلَتُهَا كَنَهَارِهَا ، أَوْ كَمَا قَالَ عَلَيْهِ الصَّلوةَ وَالسَّلام ) میں نے تم لوگوں کوملت بیضا (واضح اور روشن دین) پر چھوڑا ہے۔ جس کی رات اس کے دن کی طرح روشن ہے ۔ (یا جس طرح آنحضرت نے فرمایا ہو ) ۔ حضرت شیخ احمد بن حضرو یہ بلخی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے راستہ واضح اور دلیل روشن ہے اور داعی نے سب سنا دیا تو اب اس کے بعد کوئی حیرت اور گمراہی نہیں ہے۔ اور اگر کچھ ہے تو وہ اندھے پن کی وجہ سے ہے۔
حضرت رابعہ عدویہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صالح مری رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا جو شخص همیشه دروازہ کھٹکھٹا تارہا قریب ہے کہ اس کے لئے دروازہ کھول دیا جائے۔ تو حضرت رابعہ نے ان سے فرمایا: دروازہ کھلا ہوا ہے لیکن تم اس سے بھاگتے ہو۔ تو تم اس مقصد تک کیسے پہنچ سکتے ہو جس کے راستہ کو تم پہلے ہی قدم میں بھول گئے ہو۔ پس اے مرید! تمہارے لئے اس بات کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے راستے تمہارے اوپر مشتبہ ہو جائیں کیونکہ راستہ تو بالکل واضح ہے۔ بلکہ تمہارے لئے اس بات کا خطرہ ہے کہ نفسانی خواہش تمہارے اوپر غالب ہو جائے ۔ پھر وہ تم کو بہرا ، اور اندھا کر دے،
إِنَّ الْهَوَى مَا تَوَلَّى يُصْمِ أَوْ یَصِمِ خواہش نفسانی کی اتباع حق کے سننے سے بہرا کر دیتی ہے۔ پس تمہارے لئے ہدایت کے مشتبہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بلکہ تمہارے لئے خواہش نفسانی کی اتباع کا خطرہ ہے تمہارے اوپر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے مشتبہ ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔ بلکہ تمہارے لئے مخلوق کی جہالت کا خطرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
وَإِن تُطِعْ اكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّونَكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ اور اگر آپ اہل زمین میں سے اکثریت کی پیروی کریں گے تو وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے گمراہ کر دیں گئے۔ تمہارے لئے اہل حقیقت کے موجود نہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بلکہ تمہارے لئے اس راستے کے ڈاکوؤں کا خطرہ ہے۔ تمہارے لئے اہل حق کے پوشیدہ ہونے کا خوف نہیں ہے۔ بلکہ تمہارے لئے سچائی کی کمی کا خوف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًالهم)اگر وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے سچے ہوتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا۔
اور اللہ تعالیٰ نے اہل حق اولیاء اللہ کو تم سے پوشیدہ نہیں کیا ۔ مگر صرف تمہارے اندر صدق کے نہ ہونے کی وجہ سے۔ تو اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے اولیاء اللہ کے ساتھ اپنا گمان اچھا کر لو تو اللہ تعالیٰ تمہارے اور ان کے درمیان سے حجاب اٹھا دے گا ۔ اور تم کو سفر کر کے ان کے پاس جانے کی ضرورت نہ ہوگی بلکہ تم ان کو اپنے قریب ہی پا جاؤ گے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں