مدح و ثنا پر مذمت (پندرھواں باب)

مدح و ثنا پر مذمت کے عنوان سے پندرھویں باب میں  حکمت نمبر 143 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جب مخلوق تمہاری طرف مدح وثنا کے ساتھ متوجہ ہو تو اپنے نفس کی مذمت کرنی ، در حقیقت یہ تمہارا اپنے رب سے شرم کرنا ہے۔ اس طرح کہ اُس نے تمہارے عیوب کو چھپایا اور تمہاری خوبیوں کو ظاہر فرمایا۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس پر اپنے اس قول میں تنبیہ فرمائی ہے :-
143) المؤمِنُ إذا مُدِحَ اسْتَحَى مِنَ اللهِ تَعالى أنْ يُثْنى عَلَيْهِ بِوَصْفٍ لا يَشْهَدُهُ مِنْ نَفْسِهِ.
جب مؤمن کی تعریف کی جاتی ہے۔ تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس بنا پر شرم کرتا ہے کہ اس کی تعریف ایسے وصف کے ساتھ کی جارہی ہے جس کو وہ اپنے اختیار سے نہیں دیکھتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:- یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے۔ کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی سابق توفیق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اور تمہارے لئے اس کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ کہ تمہارے اندر عمل اور وصف اس نےپیدا کیا۔ اور اس کو تمہاری طرف منسوب کر دیا۔ تو جب کسی ایسی شے کے ساتھ تمہاری تعریف بیان کی جائے جس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اور تم صرف اس کے ظاہر ہونے کا مقام ہو۔ تو تم اس بات پر اللہ تعالیٰ سے شرم کرو ۔ کہ ایسی شے کے ساتھ تمہاری تعریف کی جارہی ہے۔ جس کے متعلق تم بخوبی جانتے ہو۔ کہ وہ تمہارے سوا دوسرے کا فعل ہے۔ ( یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے اختیار سے ظاہر ہوئی ہے ) یا اس میں سے کچھ تمہارے اوپر ظاہر نہیں ہوئی ہے۔ لہذا اگر کسی ایسےوصف کے ساتھ تمہاری تعریف کی جائے جو اس سے زیادہ ہو جو تمہارے اندر ہے۔ تو تم اللہ تعالیٰ سے زیادہ کی توفیق مانگو :-
(إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالَ لِمَا يُرِيدُ ) بیشک تمہارا رب جو ارادہ کرتا ہے اس کو پوری طرح کرتا ہے۔
اور ایسے عمل کے ساتھ جسے تم کر رہے ہو تمہاری تعریف سے تم کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اگر تمہارے دل میں تعریف کی خواہش نہیں ہے۔ حدیث شریف میں حضرت نبی کریم ﷺ سے روایت کی گئی ہے۔حضرت نے فرمایا ہے:۔ أَتَدْرُونَ ‌مَنِ ‌الْمُؤْمِنُ ، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: الَّذِي لَا يَمُوتُ حَتَّى يَمْلَأَ اللَّهُ مَسَامِعَهُ مِمَّا يُحِبُّ، وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا عَمِلَ لِطَاعَةِ اللَّهِ تَعَالَى فِي بَيْتٍ فِي جَوْفِ بَيْتٍ إِلَى سَبْعِينَ بَيْتًا، عَلَى كُلِّ بَيْتٍ بَابٌ مِنْ حَدِيدٍ لَأَلْبَسَهُ اللَّهُ تَعَالَى رِدَاءَ عَمَلِهِ حَتَّى يَتَحَدَّثَ النَّاسُ بِذَلِكَ وَيَزِيدُوا قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يَزِيدُونَ، قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُحِبُّ مَا زَادَ فِي عَمَلِهِ۔
کیا تم لوگ جانتے ہو کہ مومن کون ہے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا : اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں ۔ حضرت نے فرمایا:- مومن وہ ہے :۔ جس کی موت اس وقت تک نہیں آتی ہے، جب تک اس کے کان اس چیز سے نہ بھر جائیں، جس کو وہ محبت کرتا ہے اور اگر کوئی شخص کسی ایسے گھر کے اندرونی حصے میں چھپ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے، جس میں ستر کمرے ہوں۔ اور ہر کمرے میں لوہے کا دروازہ ہو ۔ ( جس میں سے گزر کر کوئی شخص اس کی عبادت کو نہ دیکھ سکے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو اس کے عمل کی چادر اڑھا دیتا ہے۔ یہانتک کہ لوگ اس کی عبادت کو بیان کرتے ہیں اور اس کو زیادہ کرتے ہیں (یعنی اس کو زیادہ عبادت کرنے پر آمادہ کرتے ہیں ) صحابہ کرام نے دریافت کیا:- یا رسول اللہ ! لوگ کیسے زیادہ کرتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا:- مومن اس چیز کو دوست رکھتا ہے، جو اس کے عمل میں زیادتی پیدا کرے۔ اور دوسری حدیث میں وارد ہے :۔
قيل : يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ يَعْمَلُ الْعَمَلَ خفْیَۃٌ ثُمَّ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِهٖ فَفَرَحَ .فَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ : لَهُ الْأَجْرُ مَرَّتَيْنِ : – أَجْرُ الْعَمَلِ ، وَ أَجْرُ الْفَرْحِ )
حضرت ﷺ سے دریافت کیا گیا: یا رسول اللہ ! آدمی چھپ کر کوئی عمل کرتا ہے۔ پھر لوگ اس کو مشہور کرتے ہیں۔ تو وہ خوش ہوتا ہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا:- اس کے لئے دو گنا اجر ہے۔ ایک : عمل کا اجر۔ دوسرا :- خوش ہونے کا اجر۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں