مرید کی جہالت (باب ہفتم)

مرید کی جہالت کے عنوان سے  باب  ہفتم میں  حکمت نمبر66 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے قول میں بیان فرمایا ۔
66) مِنْ جَهْلِ الْمُرِيدِ أَنْ يُسِىءَ الْأَدَبَ فَتُؤَخَّرُ الْعُقُوْبةُ عَنْهُ، فَيَقُوْلُ: لَوْ كَانَ هَذَا سُوَءُ أَدَبٍ لَقَطَعَ الإمْدَادَ ، وَأَوْجَبَ الإِبْعَادَ ، فَقَدْ يَقْطَعَ المَدَدَ عَنْهُ مِنْ حَيْثُ لَايَشْعُرُ ، وَلَوْ لَمْ يَكُنْ إِلَّا مَنْعَ المَزِيدِ ، وَقَدْ يُقَامُ مَقامَ البُعدِْ وَهُوَ لَا يَدْرِي ، وَلَوْ لَمْ يَكُنْ إِلَّا أَنْ يُخَلِّيَكَ وَمَا تُرِيدُ .
یہ مرید کا جہل ہے کہ اگر وہ بے ادبی کرے اور اس کو سزا دینے میں تاخیر کی جائے تو وہ کہے اگر یہ بے ادبی ہوتی تو امداد منقطع ہو جاتی ۔ اور بعد ( دوری ) واجب ہو جاتی ۔ تو کبھی اس سے مدداس طریقے پر منقطع کی جاتی ہے۔ کہ وہ سمجھ بھی نہیں پاتا اور اگر یہ نہیں ہوتا ہے تو اس کی آگے ترقی روک دی جاتی ہے اورکبھی تم بعد کے مقام پر قائم کر دیئے جاتے ہواور تم کو معلوم بھی نہیں ہوتا ہے اور اگر یہ
بھی نہیں ہوتا ہے تو وہ تم کو چھوڑ دیتا ہے۔ جوتمہارا دل چاہے کرو۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: سچے مرید کے لئے تاکید کی گئی چیزوں میں سے ایک یہ ہے ہر شے میں اللہ تعالیٰ کے ادب کا لحاظ رکھے۔ اور ہر شے کے لئے تعظیم ضروری سمجھے۔ اور ہر شے میں حرمت کی حفاظت کرے۔ تو اگر ان چیزوں سے کسی میں کوتاہی ، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے ادبی سرزد ہو جائے تو ذلت اور انکساری کے ساتھ عذر اور تو بہ میں جلدی کرنی چاہیئے ۔ لیکن اگر وہ تو بہ کو دوسرے وقت کے لئے ٹال دیتا ہے تو اس سے امدا د رک جاتی ہے۔ اور اس کا بھگانا اور دور کر نالازم ہو جاتا ہے ۔ اور اس کو اس کا علم نہیں ہوتا۔ تو وہ اپنے نفس کے لئے دلیل پکڑتا، اور کہتا ہے۔ اگر یہ بے ادبی ہوتی ۔ تو مجھ سے امداد منقطع ہو جاتی ۔ اور یہ اس کا بد ترین جہل ہے۔ جو اس کو سزا تک پہنچاتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی عنایت اس کے شامل نہ ہو جائے۔ اور یہ مرید کا جہل اس وجہ سے ہے کہ اس نے اپنی بے ادبی کے وقت اپنے نفس کی حمایت کی۔ اور اپنے قلب کے نقصان کا خیال نہیں کیا ۔ اس لئے کہ اگر وہ نفس کی فریب کاریوں سے واقف اور باخبر ہوتا تو اس کو تہمت لگا تا اور اس کی حمایت نہ کرتا ۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کا عارف ہوتا تو اپنے قلب کے نقصان کو سمجھتا۔ تو اس نے جہالت اور جہل دونوں کو جمع کر لیا۔ اور جہالت تو وہ بے ادبی ہے جو اس سے صادر ہوئی۔ اور جہل اپنے نفس کی طرف سے بحث کرنا ، اور بے ادبی کے صادر ہونے سے انکار کرنا ہے ۔ اور جو اس نے سزا کو محسوس نہ کرنے کی وجہ سے یہ دلیل قائم کی اگر یہ بے ادبی ہوتی تو میں امداد کے رکنے کو محسوس کرتا۔ اور اگر بھگانا اور دور کرنا لازم ہوتا تو میں آگے نہ بڑھتا تو اس سے مد د موقوف ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ سمجھتا نہیں ہے۔ اور اس کی مثال : ۔ وہ درخت ہیں۔ جن کی نشو ونما پانی پر منحصر ہے۔ جب ان کے پاس پانی کا پہنچنارک جاتا ہے تو ان کے اوپر پیاس کا اثر فورا ظاہر نہیں ہوتا ہے ۔ بلکہ کچھ مدت کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ تو جیسے جیسے مدت دراز ہوتی ہے وہ آہستہ آہستہ خشک ہوتے جاتے ہیں۔ اسی طرح مرید کا قلب مدد کے رک جانے کو جلدی محسوس نہیں کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وہم میں ڈوب جاتا ہے اور ظاہر کے ساتھ چلتا ہے ۔ تو اگر اس کے پاس نیکی کی طرف بڑھنے والی قوت ہوتی ہے۔ تو وہ تو بہ کرتا ہے۔ اور جو بے ادبی کی ہے۔ اس کو درست کرتا ہے۔ تو مدد اس کی طرف پھر لوٹ آتی ہے۔ اور اگر نیکی کی طرف بڑھنے والی قوت اس کے ساتھ نہیں ہوتی تو وہ اپنے وطن کی طرف لوٹ جاتا۔ اور اپنے بعد میں قائم ہو جاتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی بخشش کے بعد نعمت کے چھن جانے سے سلامتی طلب کرتے ہیں۔ اور اگر صرف اتنی ہی سزا ہو کہ اس کو مزید سیر یا ترقی سے روک دیا جائے ۔ تو یہی بہت ہے۔ کیونکہ جو شخص زیادتی میں نہیں ہوتا۔ وہ نقصان میں ہوتا ہے اور جس کا آنے والا دن آج سے برا ہو ۔ وہ گھاٹے میں ہے۔ اور دلیل کرنے میں اس کا یہ قول بھی ہے۔ اگر یہ بے ادبی ہوتی تو دوری کا سبب ہوتی۔ لیکن کبھی وہ دوری کے مقام پر قائم کر دیا جاتا ہے اور وہ گمان کرتا ہے کہ وہ قرب کے مقام پر ہے۔ کیونکہ قرب اور بعد کے مرتبوں کی کوئی انتہا نہیں ہے اور قرب میں جو مقام بھی ہے اس کے بعد والا مقام اس سے بہت بڑا ہے یہاں تک کہ پہلا مقام قرب اپنے بعد کے مقام کی نسبت سے بعد ہے۔ اور اگر یہ بعد بھی نہ ہو۔ بلکہ وہ تم کو صرف تمہارے ارادے کے ساتھ چھوڑ دے تو طرد اور بعد میں یہی سزا بہت ہے۔ اس لئے کہ بندے کو اس کی خواہشات کے ساتھ چھوڑ دینا۔ اس کی طرف سے بے توجہ ہونے کی علامت ہے۔ اور بندے کو اس کی خواہشات اور مرغوبات سے نکالنا۔ عنایت کرنے ، اور متوجہ ہونے کی علامت ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے پر مہربانی کرتا ہے۔ اور اس کو اپنے حضور تک پہنچانا چاہتا ہے۔ تو نفس کی مرغوب کل چیزوں کو اس پر سے منتشر کر دیتا ہے اور خوشی سے یا ناگواری سے اس کو چلاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کو اس دنیا سے مایوس کر دیتا ہے۔ اور اس دنیا کی کسی چیز کی طرف اس کی رغبت باقی نہیں رہتی ہے۔ تو اس وقت وہ اس کو اپنے حضور کے لئے پسند کرتا اور اپنی محبت کے لئے منتخب کرتا ہے۔ تو اب نہ اس کو اپنے نفس کی خبر رہتی ہے نہ غیر اللہ کے ساتھ اس کو قرار ہوتا ہے۔
اور اس کی اصل :۔ سیدنا حضرت موسیٰ کا واقعہ ہے۔ چونکہ اپنے عصا کے ساتھ ان کی محبت اور اس کی طرف ان کی رغبت کا حال اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا تِلۡكَ بِيَمِينِكَ يَٰمُوسَىٰ قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّؤُاْ عَلَيۡهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَىٰ غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَـَٔارِبُ أُخۡرَىٰ (أى حَوَائِجُ اخر) قَالَ أَلۡقِهَا يَٰمُوسَىٰ ١٩ فَأَلۡقَىٰهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّة تَسۡعَىٰ فَلَمَّا فَرَّعَنُهَا وَقَطَعَ يَأْسَهُ مِنْهَا قَالَ خُذۡهَا وَلَا تَخَفۡ
اے موسی! یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟ انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے۔ میں اس سے سہارا لیتا ہوں۔ اور میں اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں ۔ اور اس میں میرے لئے دوسرے فائدے اور حاجتیں ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: اے موسیٰ اس کو ڈال دو۔ تو انہوں نے اس کو ڈال دیا۔ تو اب وہ سانپ بن کر دوڑنے لگا۔ تو جب حضرت موسی اس سے بھاگے اور ان کی امید اس سے منقطع ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا۔ اس کو پکڑ لو اور مت ڈرو۔ کیونکہ وہ تم کو نقصان نہ پہنچائے گی۔ اس وجہ سے کہ تم اس کی طرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ رجوع ہوئے ہو۔
اور فقیر سے کہا جاتا ہے۔ اے فقیر ! یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟ تو فقیر کہتا ہے۔ یہ میری دنیا ہے میں اس سے سہارا لیتا ہوں۔ اور اس سے اپنی حاجتوں کو پوری کرتا ہوں تو اس کو حکم دیا جاتا ہے۔ اپنے ہاتھ سے اس کو ڈال دے۔ تو اب وہ سانپ بن کر دوڑتا ہے۔ جو اس کو ڈستا تھا اور اس کو محسوس نہیں ہوتا تھا۔ تو جب وہ اس سے مایوس ہو کر اللہ تعالیٰ سے مانوس ہو جاتا ہے۔ اور اس کے ساتھ مطمئن ہو جاتا ہے تو اس کو حکم دیا جاتا ہے۔ اس کو پکڑ لے۔ اور مت ڈر کیونکہ اب تو اس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ پکڑتا ہے ۔ اپنے نفس کے ساتھ نہیں ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
قابل سزا بے ادبی
اور آداب کے وہ مقامات جن میں مرید خرابی اور کو تا ہی کرتا ہے۔ تو اس کو سزا دی جاتی ہے۔ تین ہیں:
1۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ آداب۔ 2۔ شیخ کے ساتھ آداب۔3۔ بھائیوں کے ساتھ آداب
عوام کے اعتبار سے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ آداب :۔ اس کے حکم پر عمل کرنا۔ اور اس کی منع سے پر ہیز کرنا۔ اور اس کے رسول ﷺکے آداب : سنت کی اتباع ، اور اہل بدعت سے دور رہنا۔ تو جب وہ لوگ حکم کی تعمیل میں کوتاہی۔ اور منع سے مخالفت کرتے ہیں۔ تو انہیں ظاہر میں فورا سزا دی جاتی ہے۔ یا باطن اور ظاہر میں تاخیر سے مقررہ وقت پر سزا دی جاتی ہے۔
خواص کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ آداب : اس کے ذکر کی کثرت کرنی۔ اس کے حضور کا مراقبہ کرنا۔ اور اس کی محبت کو ہر شے پر مقدم رکھنا ہے۔ شیخ نے اس میں اضافہ فرمایا ۔ حدود کی حفاظت کرنا ۔ عہدوں کو پورا کرنا ۔ بادشاہ و دود اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ۔ موجود سے راضی رہنا۔ اور طاقت اور کوشش سے حاصل کی ہوئی چیز کا خرچ کرنا ہے۔ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ آداب :۔ ان کی محبت کو ہر شے پر مقدم رکھنا۔ اور ان کی ہدایت سے ہدایت حاصل کرنا۔ اور ان کے اخلاق سے اپنے کو آراستہ کرتا ہے۔ تو جب وہ اس کے ذکر میں کوتاہی کرتے ہیں۔ یا ان کے قلوب اس کے حضور کے غیر کی طرف پھر جاتے ہیں۔ یا ان کی محبت اس کے سوا کسی شے کی طرف مائل ہوتی ہے یا پہلے بیان کی ہوئی چیزوں سے کسی چیز میں کوتاہی کرتے ہیں۔ یا جو عہد انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا ، اس کو توڑتے ہیں ۔ تو ان کو ظاہر میں مار، یا قید، یا زبان سے تکلیف کے ساتھ سزادی جاتی ہے۔ یا باطن میں سزادی جاتی ہے اور یہ زیادہ سخت ہے۔ جیسے مدد کا منقطع ہونا۔ اور طرد کا لازم یا بعد کے مقام پر قائم کرنا۔
خواص الخواص کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ آداب:۔ اور وہ واصلین ہیں۔ ہر شے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ تواضع سے رہتے ہیں۔ اور ہر شے کی تعظیم کرتے ہیں ۔ اور جلال اور جمال کی تجلیات میں، یا مخلوقات کے اختلاف یا طریقوں کی تبدیلی کے ساتھ ہمیشہ اس کی معرفت سے متعلق رہتے ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آداب ۔ ان کے موافق حقیقت میں قائم ہوتے ، اور ان کی امت کی تعظیم ، اور ان کے نور کے مشاہدہ کے ساتھ رہتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابو العباس مرسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ۔ میری تیس سال کی مدت سے ، رسول ﷺ ایک لمحہ کے لئے بھی میری نگاہوں سے غائب نہیں ہوئے ، اور اگر وہ مجھ سے غائب ہوتے تو میں اپنے کو مسلمانوں میں شمار نہ کرتا ۔ تو جب عارف گزرے ہوئے آداب سے کسی میں کوتاہی کرتا ہے۔ خواہ اس کے حق میں یا اس کے غیر کے حق میں ۔ تو اس کو ظاہر میں یا باطن میں سزادی جاتی ہے۔ اور وہ اکثر فورا بیدار ہو جاتا ہے۔ اور جو کچھ فوت ہوا ہے۔ اس کا تدارک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (انَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَرُوا فَإِذَاهُمْ مُبْصِرُونَ جو لوگ پر ہیز گار ہیں ۔ جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں ۔ پس وہ فوراد یکھنے لگتے ہیں ۔
پس یہ جملہ آداب اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ہیں:۔ جو عوام ۔ اور خواص ۔ اور خواص الخواص کے لئے ہیں۔ یا اس طرح کہو :۔ طالبین اور سائرین۔ اور واصلین کے لئے ہیں۔وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں