معصیت و غفلت کی جڑ (باب سوم )

معصیت و غفلت کی جڑحکمت نمبر35

معصیت و غفلت کی جڑ کے عنوان سے  باب  سوم میں  حکمت نمبر35 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چنانچہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:۔معصیت و غفلت کی جڑ
35) أصْلُ كُلَّ مَعْصِيَةٍ وَغَفْلَةٍ وَشَهْوَةٍ الرَّضَا عَنِ النَّفْس،
ہر معصیت اور غفلت اور خواہش کی بنیاد نفس سے راضی ہونا ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اس لئے کہ جو شخص نفس سے راضی ہوتا ہے وہ اس کے احوال کو پسند کرتا ہے اور بہتر سمجھتا ہے۔ اور اس کے عیوب کو چھپاتا ہے شاعر کے قول کے مطابق:
وَعَيْنُ الرَّضَا عَنْ كُلَّ عَيْبٍ كَلِيْلَة
رضامندی اور محبت کی آنکھ ہر عیب کے دیکھنے سے کمزور ہوتی ہے۔

طاعت و عفت کی جڑ

وأصْلُ كُلَّ طَاعِةٍ وَيَقَظَةٍ وَعِفَّةٍ عَدَمُ الرَّضَا مِنْكَ عَنْها
ہر اطاعت اور ہوشیاری اور پاکی کی بنیاد نفس سے تمہاری نا راضی اور ناپسندیدگی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ جو شخص کسی کو عیب لگاتا ہے۔ اور اس کی نسبت برا گمان رکھتا ہے اورس کی طرف ناراضی کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ اس کے عیوب کی تحقیق اور تلاش کرتا اور اس سے بری یعنی علیحدہ ہو جاتا ہے۔ شاعر کے قول کے مطابق : –
ولكن عَيْنَ السُّخْطِ تُبدِى الْمَسَاوِیًا ليکن ناراضی و نا پسندی کی آنکھ عیوب کو ظاہر کرتی ہے ۔
پس اے مرید اپنے عیوب کی تحقیق اور تلاش کرو اور اپنے نفس کومتہم کرو اور اس کے احوال میں سے کسی چیز کو بہتر نہ سمجھو کیونکہ اگر تم نفس سے راضی ہوئے اور اس کے احوال کو پسند کیا تو وہ تم کو ڈس لے گا اور تم سمجھ بھی نہ سکو گے اور تم کو اللہ تعالیٰ کے حضور سے حجاب میں کر دیگا۔ اور تم دیکھتے ہی رہو گے۔

وہ دھو کہ کھا گیا

حضرت ابو حفص حداد نے فرمایا ہے:۔
جس نے ہمہ وقت نفس کی عیب جوئی نہیں کی اور ہر حال میں اسکی مخالفت نہیں کی اور ہمیشہ اس کو اس کے نا پسندیدہ حال میں نہیں رکھا تو وہ دھوکا کھا گیا او رجس نے اپنے نفس کی کسی چیز کو پسند کی نگاہ سے دیکھاوہ ہلاک ہوا۔ اور کسی عقلمند کیلئے نفس سے راضی ہونا کیسے درست ہو سکتا ہے اور بزرگ نبی کے بیٹے اور بزرگ نبی کے پوتے اور خود بھی بزرگ نبی حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا
وَمَا أَبْرِى نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي
میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا ہوں بیشک نفس تو برائی ہی کے راستہ پر چلاتا ہے مگر وہ نفس جس پر اللہ نے رحم کیا ۔
اور اسی حقیقت کے بارے میں یہ شعر کہا گیا ہے۔
تُوَقَّ نَفْسَكَ لَا تَا مَنْ غَوَائِلَهَا فَالنَّفْسُ أَخْبَث مِنْ سَبعِينَ شَيْطَانًا
اپنے نفس سے بچو اس کی شرارتوں سے بے خوف نہ رہو۔ کیونکہ نفس ستر شیطانوں سے زیادہ خبیث ہے۔
حضرت سری سقطی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے : ۔ جس نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا اس نے آرام کی زندگی بسر کی ۔ اور جو دنیا کی طرف مائل ہوا وہ تباہ ہوا اور بے وقوف صبح و شام ہلاکت میں دوڑتا ہے اورعقلمند اپنے عیوب کی تلاش میں مشغول ہے۔
پس اے میرے بھائی ! اگر تم اپنے نفس کے خیر خواہ ہو تو اپنے نفس کے عیوب کی تحقیق اور تلاش کرو۔ اگر تم اپنے نفس کے عیوب کی تحقیق کرو گے اور اسکی پوشیدہ چیزوں کو رسوا کرو گے تو نجات پا جاؤ گے۔ اور آزاد ہو جاؤ گے ۔ اور حقیقت میں قائم ہو جاؤ گے۔ اور حضور میں داخل ہو جاؤ گے۔ اور تمہاری نظر کشادہ ہو جائیگی اور تمہارے لئے فکر ظاہر ہو جائے گی۔
ہمارے شیخ الشیوخ فرماتے تھے:۔ اس شخص پر لعنت ہے جس کے سامنے اس کے نفس کے پوشیدہ عیوب ظاہر ہوئے اور اس نے نفس کو رسوا نہیں کیا نیز اکثر آدمیوں کا انتظار نہ کرنے اور ان کی طرف توجہ اور فکر نہ رکھنے کی وصیت کرتے تھے اس لئے کہ لوگوں کو اپنی نظر سے گرائے بغیر ، اور اپنے کو انکی نظروں سے گرائے بغیر، ریاء کی باریکیوں سے رہائی نہیں پاسکتا۔

نفس کی شرارتوں سے نجات

اور جو شخص نفس کی شرارتوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو چاہیئے کہ اس کی صحبت اختیار کرے جو نفس سے نجات پاچکا ہے۔ چنانچہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے:۔
. ولأنْ تَصْحَبَ جَاهِلاً لا يَرْضَى عَن نفسِه خيرٌ لكَ مِن أنْ تَصْحَبَ عَالِماً يرضى عَنْ نَفْسِه.اپنے نفس سے راضی رہنے والے عالم کی صحبت سے اپنے نفس سے راضی نہ رہنےوالے جاہل کی صحبت اختیار کرنی تمہارے لئے بہتر ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ جو شخص اپنے نفس سے راضی نہیں ہے اس کی صحبت خالص بھلائی ہے اس وجہ سے کہ وہ اخلاص کے ساتھ قائم ہے اور یہ اخلاص سے آراستہ ہو کر خواص میں ہو جاتا ہے۔ اور جو شخص اپنے نفس سے راضی ہے اگر چہ وہ سارے اہل زمین سے بڑا عالم ہو اس کی صحبت خالص برائی ہے اس وجہ سے کہ طبیعتیں دوسری طبیعتوں کو چوری کر لیتی ہیں۔ اور وہ جہالت جو اللہ تعالیٰ کے حضور سے قریب کر دے اس علم سے جو اللہ تعالیٰ کے حضور سے دور کرے افضل ہے۔ اس لئے بعض عارفین نے فرمایا ہے:۔
انسانوں میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سےحجاب میں رکھنے والے علماء ہیں پھر عابدین ، پھر زاہدین کیونکہ وہ لوگ اپنے علم اور عبادت اور زہد کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اور جو جہالت اللہ تعالیٰ تک پہنچا دیتی ہے اس کا علم حقیقت پر ہے اور جوعلم اللہ تعالیٰ سے حجاب میں کر دیتی ہے اس کی جہالت حقیقت پر ہے اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:۔
فأيُّ عِلْمٍ لعَالِمٍ يَرْضَى عَنْ نفسِه؟!
اس عالم کے پاس کون ساعلم ہے جو اپنے نفس سے راضی ہے
وَأيُّ جَهْلٍ لجَاهِلٍ لا يَرْضَى عَنْ نَفْسِه.اس جاہل کی جہالت کس قسم کی ہے جواپنے نفس سے راضی نہیں ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اس لئے کہ اس نے اپنے نفس سے ناراضی کے باعث اس کے عیوب کی تحقیق و تلاش کی اور اس کی غلامی سے نجات پا گیا پس وہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ ہو گیا، تو اب اس کے مولا نے اس کو اپنا دوست بنایا۔ اور اپنے حضور کیلئے اس کو منتخب کیا اور اپنی محبت کیلئے اس کو پسند کیا اور اس کو اپنے غیب کے علم سے آگاہ کیا پس وہ سب مخلوق سے بڑا عالم ہو گیا۔
اور جب بندہ اپنے حصوں اور بشری اوصاف سے نجات پا جاتاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں قرب حاصل کرتاہے کیونکہ اس کا قلب درست ہو جاتا ہے اور اپنے رب کے نور سے روشن ہو جاتا ہے۔ تو اس کو وجود اپنے محبوب کے وجود میں اور اس کا شہود اپنے معبود کے شہود میں فنا ہو جاتا ہے چنانچہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے:۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں