منع اورعطاء پر بچگانہ حرکت (پندرھواں باب)

منع اور عطاء پر بچگانہ حرکت کے عنوان سے پندرھویں باب میں  حکمت نمبر 147 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں آخری دو خصلتوں منع اور عطا کی طرف اشارہ فرمایا ہے:۔
147) مَتَى كُنْتَ إِذَا أُعْطِيْتَ بَسَطَكَ الْعَطَاءُ، وَإِذَا مُنِعْتَ قَبَضَكَ الْمَنْعُ، فَاسْتَدِلَّ بِذَلِكَ عَلَىَ ثُبُوْتِ طُفُوُلِيَّتِكَ، وَعَدَمِ صِدْقِكَ فِيْ عُبُوْدِيَّتِكَ.
جب تمہارا یہ حال ہو، کہ جب تمہارے اوپر عطا کی جائے تو عطا ( بخشش ) تم کو بسط (خوشی) کی حالت میں کردے۔ اور جب تم کو محروم کر دیا جائے ۔ تو محرومی تم کو قبض کی حالت میں کر دے۔ تو تم اس کو اپنی طفولیت کی دلیل سمجھو۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ طفولیت او تطفل :- کے معنی ہے۔ ایسے لوگوں میں داخل ہونا جن میں سے شامل ہونے والا نہ ہو۔ اور ان لوگوں میں شامل ہونے کی اجازت بھی نہ لی ہو ۔ اور طفیلی :- وہ ہے جو کھانے کی تقریب میں کھانا کھانے کے لئے بغیر دعوت کے شامل ہو جاتا ہے۔ اور یہ لفظ کوفہ کے رہنے والے ایک شخص سے منسوب ہے۔ اس کا نام طفیل الاعراس تھا۔ بنی عبداللہ بن غطفان کے قبیلے سے تھا۔ وہ کھانے کی محفلوں میں دعوت کے بغیر شامل ہوا کرتا تھا۔ اس لئے حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس سے اُس شخص کی مشابہت کی جو صوفیائے کرام کی جماعت میں شامل ہو جاتا تھا۔ (یعنی صوفیائے کرام کی طرح شکل بنا کر صوفی ہونے کا دعوی کرنے لگتا ہے )حالانکہ وہ احوال کے اس اعتدال اور استوا (برابری اور مضبوطی )پر ثابت و قائم نہیں ہوا ہے۔ جس پر صوفیائے کرام ثابت و قائم ہیں
پس اے فقیر ! اگر تمہاری یہ حالت ہو کہ جب تم کو تمہارے فوائد عطا کئے جاتے ہیں ۔ اور تمہاری تمنا ئیں پوری کر دی جاتی ہیں اور تم اپنی عادات و خواہشات مثلا دولتمندی اور عزت اورمرتبہ اور خوشحالی اور تندرستی اور آرام اور ان کے علاوہ دوسرے فوائد اور خواہشات کے پانے میں کامیاب ہو جاتے ہو۔ تو تم خوش ہوتے ہو۔ اور جب تم اپنے فوائد اور خواہشات سے محروم کر دیئے جاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دولتمندی کو فقیری اور محتاجی سے اور عزت کو ذات سے اور مرتبہ اور شہرت کو گمنامی سے اور خوشی کو رنج وغم سے اور تندرستی کو بیماری سے اور آرام کو مصیبت سے بدل دیتا ہے۔ تو تم رنجیدہ اور پریشان ہوتے ہو تو تم حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے کلام کے مطابق اس حالت کو اپنے طفیلی ہونے کی دلیل سمجھو۔ اور تم کو ان کے مقام سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ اور در حقیقت تم صرف عرسوں کے کھانے میں بغیر دعوت کے شامل ہونے والے طفیلی ہو ۔ اور ہمیشہ خواب غفلت میں ہو۔
اور نیز اس حالت کو تم اپنی عبودیت میں سچائی نہ ہونے کی دلیل تصور کرو ۔
کیونکہ عبودیت میں سچائی : نعمت اور مصیبت میں ، یکسانیت (برابری) چاہتی ہے۔ جیسا کہ ایک عارف شاعر نے فرمایا:-
احِبَّايَ أَنتُمْ أَحْسَنَ الدَّهْرَامْ أَسا فَكُونُوا كَمَا شِئْتُمْ أَنَا ذَالِكَ الْخِلُّ
تم لوگ ہر حال میں میرے دوست ہو۔ زمانہ خواہ اچھا ہو یا برا۔ لہذا تم جس طرح چاہو رہو (یعنی تم لوگ میرے ساتھ اچھا سلوک کرو یا برا) میں ویسے ہی تمہارا دوست ہوں ۔
حضرت ابو عثمان حیری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ کوئی آدمی کامل نہیں ہوتا ہے۔ جب تک اس کے دل میں چار چیزیں برابر نہ ہو جائیں۔ محرومی اور بخشش اور عزت اور ذلت
تو اگر فقیر جلال کے وقت کمزور ( بے قابو ) ہو جائے اور بہادروں کے حملے کے وقت شکست کھا جائے تو سمجھ لو کہ وہ کمزور حال والا ہے اور اللہ والوں کی شکل وصورت اور لباس میں طفیلی ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب تنویر میں فرمایا ہے :- اور در حقیقت اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور اپنے احسان سے ایسے فقیروں کو آزماتا ہے۔ جو اپنی پوشیدہ رغبت اور خواہش کے ظاہر کرنے میں بچے نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے کو اہل دنیا کے سامنے (اپنی ذات کو ان کے لئے استعمال کر کے) ذلیل کرتے ہیں۔ اس طرح کہ ان سے مل کر خوش ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں۔ اُن کے مرغوبات (پسند ) میں ان کی موافقت کرتے ہیں۔ ان کے دروازوں پردھکے کھاتے ہیں۔ پس تم ان میں سے بعض ایسا شخص بھی دیکھو گے۔ کہ وہ دلہن کے بناؤ سنگار کی طرح بناؤ سنگار کرتا ہے۔ وہ اپنے ظاہر کی درستی میں مشغول رہتا ہے اور اپنے باطن کی اصلاح سے غافل رہتاہے اور کبھی اللہ تعالیٰ ان کے اوپر کوئی نشان لگا کر ، اس کے ذریعے ان کے عیوب کو کھول دیتا ہے اور ان کے خبروں کو ظاہر کر دیتا ہے۔ پس اس کے بعد کہ اگر اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچی ہوتی تو اس کو عبدالکبیر کہا جاتا لیکن چونکہ وہ اپنے سچا نہ ہونے کے سبب اس نسبت سے خارج ہو گیا۔ اس لئے وہ ایسا ہو گیا۔ اس کو شیخ الا میر (امیر کا شیخ) کہا جائے۔ یہی لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان لگانے والے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اولیاء اللہ کی صحبت سے روکنے والے ہیں۔ کیونکہ عوام ان کا جو حال دیکھتے ہیں۔ اس کو اس جماعت سے منسوب ہر شخص پر اڑھا دیتے ہیں ( چسپاں کر دیتے ہیں) خواہ وہ سچا ہو یا جھوٹا ہو۔ لہذا یہ لوگ اہل حقیقت کے پردے ہیں۔ اور اہل توفیق کے سورجوں کے چھپانے والے بادل ہیں۔ اپنے طبلے بجاتے ہیں ۔ اور اپنے جھنڈے لہراتے ہیں۔ اور اپنی زرہوں کو پہنتے ہیں ۔ پھر جب حملہ ہو جاتا ہے۔ تو اپنی ایڑیوں پر پھر کر بھاگتے ہیں۔ وہ صرف زبانی دعوی کرتے ہیں اور ان کے قلوب تقوی ( اللہ تعالیٰ کے خوف ) سے خالی ہیں۔ کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا ہے :-
ليَسئَلَ الصَّادِقِينَ عَنْ صِدْقِهِمْ ) تا کہ اللہ تعالیٰ سچے لوگوں سے ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے ۔ کیا تم یہ سوچتے ہو؟ جب اللہ تعالیٰ سچے لوگوں سے ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے گا۔ کیا وہ دعوی کرنے والوں کو بغیر سوال کے چھوڑ دے گا ۔؟
کیا انہوں نے اللہ سبحانہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا ہے :-
قُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَ سَتَرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
آپ فرما دیجئے ! کہ تم لوگ عمل کرو ۔ پس عنقریب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ اور مومنین تمہارے عمل کو دیکھیں گے اور عنقریب تم لوگ پوشیدہ اور ظاہر کے جانے والے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر وہ تم لوگوں کو تمہارے ان اعمال کی خبر دے گا۔ جوتم لوگ دنیا میں کرتے تھے ۔
پس وہ سچے لوگوں کے لباس اور ان کی شکل کے ظاہر کرنے میں مشغول ہیں اور ان کا عمل غافلوں اور منہ پھیر لینے والوں کا عمل ہے۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے :۔
أَمَّا الْخَيَامُ فَإِنَّهَا كَخِيَامِهِمُ وَأَرَى نِسَاءَ الْحَيِّ غَيْرَ نِسَائِهَا
خیمے تو بیشک انہی کے خیموں کی طرح ہیں۔ لیکن قبیلے کی عورتیں، میں اُن کی عورتوں کے سوا دوسری دیکھتا ہوں ۔
لَا وَالَّذِي حَجَّتْ قُرَيْشٌ بَيْتَهُ مُسْتَقْبِلِينَ الرُّكْنَ مِنْ بَطْحَائِهَا
اس ذات پاک کی قسم! جس کے گھر کا اہل قریش حج کرتے ہیں۔ اس حال میں کہ اس کے پتھر یلے میدان سے رکن کا استقبال کرتے ہیں ۔
مَا أَبْصَرْتُ عَيْنِي خَيَامَ قَبِيلَةٍ إِلَّا بُكَيْتُ أَحِبَّتي بِفِنَائِهَا
اے میرے دوستو ! میں نے جس قبیلے کے خیموں کو دیکھا۔ اس کے سامنے کھڑا ہوکر میں رویا ۔ یہاں پندرواں باب ختم ہوا۔
اس کا حاصل :- تعریف اور بدگوئی میں مرید کے آداب ہیں اور اس کا مرجع پانچ آداب ہیں۔ اول :- نفس کی مذمت کرنا۔ جب اس کی تعریف ایسے وصف کے ساتھ کی جائے جو اس میں نہیں ہے۔
دوسرا : اللہ تعالیٰ سے اس بات پر اس کا شرم کرنا۔ کہ اس کی تعریف ایسے وصف کے ساتھ کی جائے جس کو وہ اپنی ذات سے نہیں دیکھتا ہے۔
تیسرا : اپنے اندر موجود عیوب کے یقین کی طرف رجوع کرے۔ پھر اس پر بھروسہ کرے اور اپنے بارے میں لوگوں کے حسن ظن سے دھوکا نہ کھائے اور اس پر اعتماد نہ کرے۔
چوتھا:۔ اپنے مولائے حقیقی اللہ تعالیٰ کی تعریف اور شکر کثرت سے کرے۔ کیونکہ اس نے اس کے عیوب کو پوشیدہ کیا۔ اور اس کی توفیق اور ہدایت کو ظاہر کیا۔
پانچواں یہ احوال میں معتدل ہو اور اس کا قلب مطمئن ہو۔ برا کہنے سے رنجیدہ نہ ہو۔ تعریف سےخوش نہ ہو۔
بعض عارفین نے فرمایا: جب تم کو کہا جائے۔ تم اچھے آدمی ہو۔ تو یہ تم کو اس کہنے سے تم برے آدمی ہو’ زیادہ پسند ہو۔ تو خدا کی قسم ! تم برے آدمی ہو۔
ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مولای عربی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا۔ اور ان کے سامنے اُن کی تعریف کرنے لگا۔ حضرت شیخ نے اس سے کہا :۔ اے شخص تو اپنی تعریف سے مجھ کو دھوکا نہ دے۔ میں اپنے نفس کو اچھی طرح پہچانتا ہوں ۔ کب میں سب سے بہتر ہوتا ہوں ۔ اور کب سب سے کمتر ہوتا ہوں؟ تو جس وقت میں اپنے رب اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتا ہوں ۔ اس وقت سب سے بہتر ہوتا ہوں۔ اور جس وقت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتا ہوں۔ اس وقت سب سے کمتر ہوتا ہوں۔ یا ایسا کلام فرمایا۔ جس کا مفہوم ہی تھا۔ لیکن یہ پانچواں ادب ، احوال کے اختلاف کے ساتھ مختلف ہوتا رہتا ہے۔
پس عابدین مدح و ثنا پر مذمت کو تر جیح دیتے ہیں۔ اور عارفین ، مذمت پر مدح وثنا کی پسند کو ترجیح دیتے ہیں۔ یا دونوں میں اعتدال ( برابری ) اختیار کرتے ہیں۔ جیسا کہ وہ منع وعطا اور قبض وبسط اور ذلت و عزت اور فقیری و دولتمندی وغیرہ احوال کے اختلاف اور عادتوں کے تغیرات میں اعتدال اختیار کرتے ہیں۔ اور انہیں سب احوال میں سے خوف ورجاء ہے اور اس میں ان کا اعتدال اس حیثیت سے ہے کہ جب ان سے کوئی طاعت صادر ہوتی ہے۔ تو ان کی امید میں زیادتی نہیں ہوتی ہے۔ اور جب ان سے کوئی لغزش واقع ہوتی ہے۔ تو ان کے خوف میں اضافہ نہیں ہوتا ۔ نہ ان کی استقامت میں کمی ہوتی ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے سولہویں باب کی ابتدا میں اس کو بیان فرمایا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں