نفرت اوروحشت کا سبب (بارھواں باب)

نفرت اوروحشت کا سبب کے عنوان سے بارھویں باب میں  حکمت نمبر 115 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
کیونکہ وہ ایسا شخص ہے جس میں تسلیم ورضا مضبوطی سے ثابت ہو جاتی ہے۔ اور اس کی علامت یہ ہے: وہ کسی شے سے وحشت اور نفرت نہیں کرتا ہے۔ کیونکہ اس کو ہرشے میں اللہ تعالی کی معرفت ، اور اس کی سمجھ حاصل ہوتی ہے۔ اور غیر عارف عابدین اور زاہدین کا حال اس کے خلاف ہوتا ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
115) إِنَّمَا اسْتَوْحَشَ العُبَّادُ وَالزُّهَّادُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ لِغَيْبَتِهِمْ عَنِ اللهِ فِي كُلِّ شَيْءٍ ، فلَوْ شَهِدُوهُ فِي كُلِّ شَيْءٍ لَمْ يَسْتَوْحِشُوا مِنْ شِيْءٍ.
عابدین ، اور زاہدین ہر شے سے اس لئے نفرت کرتے ہیں کہ وہ ہر شے میں اللہ تعالی سے غائب ہیں۔ پس اگر وہ ہرشے میں اللہ تعالی کا مشاہدہ کرتے تو کسی شے سے نفرت نہ کرتے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ عابدین:۔ وہ لوگ ہیں جن کے اوپرفعل غالب ہے۔ اس لئے وہ ظاہری عبادت میں مستغرق ہیں۔ رات کو نفل نمازوں میں قیام کرتے (کھڑے رہتے ) ہیں۔ اور دن کو روزہ رکھتے ہیں۔ عبادت کی حلاوت نے ان کو مشغول کر کے معبود حقیقی اللہ تعالیٰ کے مشاہدہ کی حلاوت سے روک دیا ہے۔ تو وہ اپنی عبادت کے سبب اپنے معبود سے حجاب میں ہو گئے ہیں۔ اور زاہدین:۔ وہ لوگ ہیں ، جن کے اوپر ترک غالب ہے۔ اس لئے وہ دنیا اور اہل دنیا سے بھاگتے ہیں۔ انہوں نے زہد کی حلاوت چکھ لی ہے۔ اس لئے زہد کے ساتھ ٹھہر گئے ہیں۔ اور اللہ تعالی سے حجاب میں ہو گئے ہیں۔ تو وہ اشیاء میں اللہ تعالی سے غائب ہونے کی وجہ سے ہرشے سے نفرت کرتے ہیں۔ اور اگر وہ ہرشے میں اللہ تعالی کی معرفت حاصل کراتے تو کسی شے سے نفرت نہ کرتے ۔ بلکہ وہ ہرشے سے محبت کرتے ۔ اور ہرشے کے ساتھ ادب سے پیش آتے ۔
اور عارفین۔ اپنی بصیرت کے طاقتور ہونے کی بناء پرمخلوق کو حق سبحانہ تعالی کے مظاہر میں ے مظاہر سمجھتے ہیں۔ تو پہلے وہ حق سبحانہ تعالی کے ساتھ مخلوق سے، اور باطن کے ساتھ ظاہر سے ،اورقدرت کے ساتھ حکمت سے محجوب ہوئے ۔ پھر وہ مخلوق میں حق سبحانہ تعالی کے مشاہدے کی طرف، اور حکمت میں قدرت کے مشاہدے کی طرف لوٹائے گئے ۔ تو جب انہوں نے ہرشے میں حق سبحانہ تعالی کو پہچانا۔ تو وہ ہرشے کے ساتھ مانوس ہو گئے ۔ اور ہرشے کے ساتھ مؤدب ہو گئے ۔ اور ہرشے کی تعظیم کرنے لگے۔
اسی حقیقت کے بارے میں حضرت مجذوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
الْخَلْقُ نَوَّارٌ وَأَنَا رَعَيْتُ فِيهِمْ هُمُ الْحُجُبُ الأَكْبَرُ وَالْمَدْخَلُ فِيهِمُ
مخلوق قابل نفرت ہے۔ اور میں انہی میں چلا ہوں۔ وہ بڑے حجابات ہیں اور داخل ہونے کی جگہانہیں کے اندر ہے (یعنی انہیں میں رہنا ہے )
جب حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رضی اللہ عنہ نے مخلوق کی شان میں فرمایا: میں مخلوق کو ہوا میں وہمی غبار کی طرح دیکھتا ہوں ۔ اگر تم انہیں تلاش کرو گے تو کچھ نہ پاؤ گے۔ تو حضرت سیدی علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں، بلکہ اگر تم ان کو تلاش کرو گے ، تو ایک شے پاؤ گے ۔ اور یہ شے ایسی ہوگی ، جس کے مثل دوسری کوئی شے نہ ہوگی۔ یعنی تم ان کو اللہ تعالی کے مظاہر میں سے مظاہر، اور ملکوت کے انوار میں سے انوار پاؤ گے۔ جو جبروت کے سمندر سے آتے ہیں۔
عینیہ کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے:
تَجَلَّيتَ فِي الْأَشْيَاءِ حِينَ خَلَقْتَهَا فَهَا هِيَ میْطَتْ عَنْكَ فِيهَا البَرَاقِعُ
تو اشیاء کے اندر اسی وقت جلوہ گر ہوا۔ جب تو نے ان کو پیدا کیا۔ تو ان کے اندر تیرے اوپر سے پردے ہٹے ہوئے ہیں ۔
قَطَعْتَ الْوَرَى مِنْ ذَاتِ نَفْسِكَ قِطْعَةٌ وَلَمْ يَكُ مَوْصُولٌ وَلَا فَصْلَّ قَاطِعُ
تو نے مخلوق کو اپنی ذات سے پوری طرح جدا کیا ۔ تو اب نہ وصل ہے۔نہ فصل ۔
اورا ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مجذوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
طلع النَّهَارُ عَلَى قَلْبِي حَتى نَظَرْتُ بِعَيْنَيْیَا أنتَ دَلِيلِي يَا رَبِّي أَنتَ أَولَى مِنِى بِیَا
میرے اوپر دن طلوع ہوا ۔ یہاں تک کہ میں نے اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھا۔ اے میرے رب تو میری دلیل ہے۔ اور تو مجھ سے زیادہ میرے قریب ہے
حاصل یہ ہے:۔ عارفین باللہ حق سبحانہ تعالیٰ کے مشاہدے میں مخلوق کے مشاہدے سے غائب ہو چکے ہیں۔ تو وہ مخلوق کے ساتھ اجسام کے ساتھ ہیں۔ اور حق سبحانہ تعالی کے ساتھ ارواح کے ساتھ ہیں۔ وہ مر چکے۔ پھر اٹھائے گئے ۔ اور ان کی قیامت قائم ہو چکی ۔ اور ان کے حق میں اس زمین و آسمان کے علاوہ دوسری زمین اور آسمان بدلے جاچکے۔ اور وہ اللہ واحد قہار کے سامنے حاضر ہو گئے۔ تو وہ انوار اور آدمیوں کو اغیار کی ظلمت میں دیکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیائے فانی میں ان کے سامنے اپنے ان پوشیدہ اسرار کو کھول دیا ہے۔ جن کو اس کی پوشیدگی کی قہاریت ڈھانپے ہوئے ہے۔ اور عنقریب آخرت میں ان کے سامنے اپنی ذات کے اسرار کو ظاہر کرے گا ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں