نفس کی قید سے نجات (گیارھواں باب)

نفس کی قید سے نجات کے عنوان سے گیارھویں باب میں  حکمت نمبر 111 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جب تمہارے لئے یہ حالت ثابت اور قائم ہو جائے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہارے نفس کی قید سے نجات دے دی۔ اور تمہارے فوائد کی غلامی سے تم کو آزاد کر دیا۔ تو اس حالت کے موجود ہوتے ہوئے تم اس ظاہری کرامات کی پرواہ نہ کروجس سے تم کو فوت کر دیا۔ (یعنی عطا نہیں کیا کیونکہ ظاہری کرامات ، وہی امور ہیں جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
111) لَيْسَ كُلُّ مَنْ ثَبَتَ تَخْصيصُهُ كَمُلَ تَخْليصُهُ.
ایسا نہیں ہے کہ جس کی خصوصیت ثابت ہو گئی محظوظ اور خواہشات سے اس کی نجات مکمل ہو گئی ہو۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: یہاں خصوصیت سے مراد ظاہری کرامات کی خصوصیت ہے۔ اور نجات سے مراد فوائد اور باقی ماسوی اللہ سے نجات ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ہر وہ شخص جس کی خصوصیت ظاہری کرامات کے ساتھ ثابت ہو، اس کو اس کے نفسانی فوائد اور خواہشات سے مکمل نجات حاصل ہو چکی ہو ۔ بلکہ کبھی ظاہری کرامت بعض ایسے شخص کو عطا کی جاتی ہے جس کو اس کے نفسانی فوائد اور خواہشات سے نجات حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اور ایسے شخص سے کرامات کے صادر ہونے میں تین حکمتیں ہیں۔
پہلی حکمت اس کو عمل میں آمادہ رکھنا ہے۔ تا کہ عاجزی یاسختی حاصل ہو۔
دوسری حکمت: اس کے لئے امتحان ہے کیا ان کے ساتھ ٹھہر کر حجاب میں ہو جاتا یا اس سےآگے بڑھ کر مقام قرب میں پہنچتا ہے۔ تیسری حکمت اس کے یقین میں زیادتی ، یا اس کے بارے میں دوسروں کے یقین میں زیادتی ہے۔ تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا ئیں۔ کیونکہ ہر حالت میں تکمیل سے یہی مقصود ہے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے فرمایا: جس نے ان سے بیان کیا: جب میں وضو کرتا ہوں تو میں پانی کو اپنے ہاتھ سے سونے اور چاندی کی شاخوں کی شکل میں گرتے دیکھتا ہوں ۔ تو حضرت سہل نے اس کو جواب دیا کیا تم نہیں جانتے ؟ کہ بچے جب روتے ہیں تو انہیں خشخاش (پوستہ دانہ ) دیا جاتا ہے۔ تو وہ اس میں مشغول ہو کر بہل جاتے ہیں۔
ایک عالم نے فرمایا ہے: میں نے ان کرامات کو صادقین میں سے صرف احمق (سادہ لوح) لوگوں کے ہاتھوں پر دیکھا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں سب سے بڑی کرامت معرفت اور استقامت ، اور حجاب کا اٹھنا، اور دروازے کا کھلنا ہے تو اس سے بڑی کوئی کرامت نہیں ہے۔ اور عنقریب اس حقیقت پر بحث بعد میں آئے گی۔ انشاء اللہ
اور یہ بھی احتمال ہے کہ خصوصیت سے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کی مراد: قرب ، اور ہدایت کی خصوصیت ہو۔ تو مفہوم یہ ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہدایت اور انوار کے ظہور کے ساتھ جس کی خصوصیت ثابت ہو چکی ہو اغیار کے دیکھنے سے اس کی نجات مکمل ہو گئی ہو۔ کیونکہ کبھی وہ مجاہدہ ہو اور مکا بدھ کے ساتھ خاص کیا جاتا ہے اور معرفت اور مشاہدہ کا تحفہ اس کو نہیں دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خدمت کے لئے قائم کیا ہے۔ اور کچھ لوگوں کو اپنی محبت کے ساتھ خاص کیا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ تو وہ عابدین، اور زاہدین جن کی خصوصیت ثابت ہو چکی ہے وہ عوام مقربین میں سے ہے اور جب تک وہ خواص عارفین میں شامل نہ ہو جا ئیں ماسوی کے مشاہدہ سے ان کی نجات مکمل نہیں ہوتی ہے۔ وباللہ التوفیق۔
یہاں گیارہواں باب ختم ہوا
خلاصہ اس باب کا حاصل تعرفات جلالیہ میں ہمیشہ اس کی معرفت کے ساتھ ، اور اس کی نعمت میں اس کی نعمت کے مشاہدہ کے ساتھ، اور اس کی قضا و قدر کے احکام میں اس کے لطف و احسان کے جاری ہونے کے ساتھ ادب کا لحاظ رکھنا ہے۔ تا کہ خواہشات تمہارے اوپر غالب نہ ہوں۔ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ ہدایت کے راستے تم پر مشتبہ ہو جائیں۔ یا تم ان اشیاء کے ظاہر کے ساتھ ٹھہر جاؤ۔ جو جلال کا مقام اور مظہر ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ تم ان باتوں سے حجاب میں ہو جاؤ۔ جو جمال کا مقام ہے۔ تو ذات جلال ہے۔ اور صفات جمال ہے۔ تو جو شخص جلال کے ظاہروں کے ساتھ ٹھہر جاتا ہے۔ اور جمال کے مشاہدہ سے حجاب میں ہو جاتا ہے۔ اور اللہ والوں کی معرفت سے محروم رہ جاتا اور عظمت و جلال کے مالک اللہ تعالیٰ سے محجوب ہو جاتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بے ادب ہو جاتا ہے اور مقصد کے حاصل ہونے سے محروم ہو جاتا ہے۔ پس جب عنایت الہٰی اس کے شامل حال ہوتی ہے۔ اور ہدایت کی ہوا اس پر چلتی ہے تو اس کا (جسمانی اعضاء ) عبودیت کے وظائف میں ، اور اس کا باطن ربوبیت کے مشاہدہ میں مشغول ہے۔ تو وہ ظاہر میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرنے والا ، اور باطن میں اس کے قہر یعنی قضاء کے احکام کو رضامندی کے ساتھ تسلیم کرنے والا ہوتا ہے۔ تب اس کے اوپر اس کے مولائے کی نعمت پوری ہو جاتی ہے۔ اور اسکے فوائد اور اس کی خواہشات کی غلامی سے اس کی نجات مکمل تی ہے اور اس وقت وہ اپنے مولائے حقیقی اللہ تعالیٰ کی مشیت کی عزت و تعظیم کرتا ہے۔ اور اس محبت اور رضامندی کے اسباب میں سے کسی شے کو حقیر نہیں سمجھتا ہے۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے بارھویں باب کی ابتداء میں اس کو بیان فرمایا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں