وطن اصلی کی مشتاق (بارھواں باب)

وطن اصلی کی مشتاق کے عنوان سے بارھویں باب میں  حکمت نمبر 117 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور اللہ تعالی نے اس دنیائے فانی میں اپنی مخلوقات کے واسطہ سے تمہیں اپنی طرف دیکھنے کا حکم اس لئے دیا ہے تا کہ تمہیں اس کی ذات کے شہود ، اور اس کی طرف دیکھنے سے تسلی اور اطمینان حاصل ہو۔ کیونکہ عاشق کو اپنے معشوق کے دیدار کے بغیر صبر نہیں ہوتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس حقیقت کو اپنے اس قول میں واضح کیا ہے:
117) عَلِمَ مِنكَ أَنَّكَ لاَ تَصْبِرُ عَنْهُ، فَأَشهَدَكَ مَا بَرَزَ مِنهُ.
اللہ تعالی نے یہ معلوم کیا کہ تم اس کے دیدار کے بغیر صبر نہیں کر سکتے ہو۔ اس وجہ سے اس نے تم کو اپنی مخلوقات کا مشاہدہ کرایا۔ جو اس کی ذات سے نمودار ہوئی ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ جب حق سبحانہ تعالیٰ نے اس روح کو جولطیف اور نورانی ہے۔ اس کی اصل سے جدا کیا۔ اور وہ اپنے وطن سے دور ہو کر غریب الوطن ہو گئی۔ تو وہ اپنے اصلی وطن میں پہنچنے کی مشتاق ہوئی۔ اور اپنے آقائے حقیقی کے محبت کی پیاسی ہوئی ۔ چونکہ اللہ تعالی کو یہ علم تھا۔ کہ وہ اس کے دیدار کے بغیر صبر نہیں کر سکتی ہے۔ (یعنی اس کو چین اور سکون نہیں ہوگا ) لیکن جب تک وہ اس جسم خاکی کے قفس میں قید ہے۔ اس کے اندر یہ طاقت بھی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اس کے جلال کے کمال ، اور اس کے جمال کے نور کے ساتھ دیکھ سکے۔ اس وجہ سے اللہ تعالی نے اس کو اپنی ذات کی ان تجلیوں کا مشاہدہ کرایا۔ جو اس کی مخلوقات کے مظاہر، اور صفات کے آثار میں ظاہر ہوئیں ۔ لیکن چونکہ حسینوں کے لئے نقاب ، اور سورج کے لئے بدلی لازمی اور ضروری ہے۔ اس وجہ سے جبروت کے انوار ملکوت کے باغیچوں میں نمودار ہوئے ۔ پھر ان کو حکمت کی بدلیوں ، اور قدرت کی نشانیوں نے ڈھانپ لیا۔ تو روح آثار کی بدلیوں کی اوٹ سے اپنی اصل سے عشق کرتی ہوئی باقی رہ گئی۔ پھر جب بادل چھٹ جائے گا۔ اور حجاب ہٹ جائے گا۔ تو ہر دوست اپنے دوست کی ملاقات کا شرف حاصل کر لے گا ۔ اور ہر انسان اپنا ٹھکانا ، اور اپنا مقام پہچان لے گا۔ اس لئے روح نے مخلوق کے پردے کے اوٹ سے حقیقت کے مشاہدے پر قناعت کر لی۔
حضرت غوث شیخ ابومد ین رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کی طرف اپنے مندرجہ ذیل کلام میں اشارہ فرمایا ہے
فَلَوْلَا مَعَانِيكُم تَرَاهَا قُلُوبُنَا إِذَا نَحْنُ ایْقَاظٌ وَفِي النَوْمِ إِنْ غِبْنَا
اگر ہمارے قلوب تمہاری حقیقتوں کو بیداری اور نیند کی حالتوں میں نہ دیکھے۔
لَمُتُنَا أَسَى مِنْ يُعْدِكُمْ وَصَبَابَةً وَلَكِنْ فِي الْمَعْنَى مَعَانِيكُمْ مَعْنَا
تو ہم تمہاری جدائی کے غم میں ، اور محبت سے مر جاتے۔ لیکن حقیقت میں تمہاری حقیقتیں بہت بڑی حقیقت ہیں ۔
یعنی اگر ہمارے قلوب تمہاری ذات کی حقیقتوں کو تمہاری صفات کے مظاہر میں نہ دیکھتے۔ تو ہم عشق کی بے قراری سے مر جاتے ۔ یا اگر ہمارے قلوب تمہاری ربوبیت کی حقیقتوں کو تمہاری مخلوقات کے مظاہر میں نہ دیکھتے ۔ یا اگر ہمارے قلوب تمہارے جبروت کی حقیقتوں کو عالم ملکوت میں نہ دیکھتے۔ تو ہم تمہاری جدائی کے غم ، اور تمہاری ملاقات کے شوق میں مر جاتے۔
اور ان کا قول وَلكِنْ فِي الْمَعْنَى مَعَانِیْکُمْ مَعْنَا لیکن تمہارا جن حقیقتوں کو ہمارے قلوب حقیقت میں دیکھتے ہیں۔ وہ بڑی حقیقت ہے۔ تو ہم اس کے مشاہدے سے مانوس ہو گئے ۔ اور ہماری روحیں بھی اس سے مانوس ہو گئیں ۔ اس وجہ سے عشق اور شوق میں ہم مرے نہیں ۔ واللہ تعالی اعلم۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں