وہم کی غلامی (باب ہفتم)

وہم کی غلامی کے عنوان سے  باب  ہفتم میں  حکمت نمبر61 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور چونکہ طمع کا سبب وہم اور پریشانی ہے۔ اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے طمع کے بعد ہی اس کا ذکر فر مایا:
61) مَا قَادَكَ شَيْءٌ مِثْلُ الْوَهْمِ .
وہم کی طرح کسی چیز نے تم کو نہیں کھینچایعنی غلام نہیں بنایا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ و ہم: ابتدائی وسوسہ ہے اور وہ شک سے کمزور ہوتا ہے۔ اور یہاں وہم سے مراد یقین کا مخالف ہے اور وہ ظن اور شک پر صادق ہوگا ۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) فرماتے ہیں، مخلوق میں طمع کرنے، اور ان کے سامنے خوشامد کرنے ، اور جو کچھ ان کے ہاتھوں میں ہے، اس کے لئے ذلیل ورسوا ہونے کی طرف ، وہم کی طرح کسی چیز نے نہیں کھینچا۔ یعنی جب تم نے یہ وہم کیا کہ بے شک ان کے ہاتھ میں کچھ نفع یا نقصان ہے۔ یا کچھ دینے اور روک دینے کا اختیار ہے تو تم نے ان میں حرص کیا۔ اور ان کے سامنے ذلت اختیار کی۔ اور ان کے اوپر بھروسہ کیا۔ اور ان سے خوف کیا۔ اور اگر تم کو یہ یقین ہوتا کہ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اور ان کی ذات اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے۔ اور وہ اپنی ذات کو بھی نفع پہنچانے سے عاجز ہیں۔ تو اپنے غیر کو کس طرح نفع پہنچانے کی قدرت ان کو ہوسکتی ہے؟ تو تم اپنی امید ان سے منقطع کر لیتے اور اپنی ہمت ان سے اٹھا لیتے ۔ اور اللہ رب الارباب کے ساتھ وابستہ کر دیتے۔ اور اپنے ساتھیوں اور دوستوں کو چھوڑ دیتے ۔ یا تم اس طرح کہو تم کو عیان و شہود کے حضور سے کسی نے نے نہیں کھینچا۔ مگر مخلوقات کے وجود کے وہم نے ۔ اگر وہم کا حجاب تم سے چاک ہو جاتا ۔ تو آنکھوں کے نہ ہونے کے باوجو د عیاں یعنی مشاہد ہ واقع ہو جاتا۔ اور جب یقین کا نور روشن ہوتا تو مخلوقات کے وجود کو ڈھانپ لیتا۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تنویر میں فرمایا ہے ۔ غیر اللہ سے تعلق کی کشش نے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے سے روک دیا ہے۔ کیونکہ جب ان کے قلوب نے اللہ تعالیٰ کی طرف سفر کرنے کا ارادہ کیا ۔ تو ان کو اس تعلق نے اس چیز کی طرف کھینچ لیا۔ جس سے انہوں نے تعلق قائم کیا۔ تو وہ دوبارہ اسی کی طرف لوٹ گئے اور اسی پر متوجہ ہو گئے ۔ پس جس شخص کی تعریف اور صفت یہ ہو جو بیان ہوئی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا حضور حرام اور ممنوع ہے۔ ایک عارف نے فرمایا ہے : تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں پہنچنے کا گمان نہ کرو ۔ جب کہ کوئی شےتمہارے پیچھے سے تم کو کھینچتی ہو ۔ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کو سمجھو :۔
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيم
جس دن نہ مال فائدہ دے گا، نہ اولادہ مگر جو شخص اللہ تعالیٰ کے پاس قلب سلیم کے ساتھ آئے گا۔ اور قلب سلیم :۔ وہی ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے سوا کسی شے کے ساتھ نہ ہو۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَى كَمَا خَلَقْنَا كُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ اور البتہ تم لوگ ہمارے پاس تنہا آئے جس طرح ہم نے تم کو پہلی مرتبہ تنہا پیدا کیا۔
اس آیہ کریمہ سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچنے کے لئے تمہارا آنا، درست نہیں ہوتا ہے۔ جب تک تم اس کے ماسوا سے جدا ہو کر تنہا نہ ہو جاؤ۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
أَلَمۡ يَجِدۡكَ يَتِيمٗا فَـَٔاوَىٰ کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا۔پس آپ کو پناہ دی۔
اس آیہ کریمہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ تم کو اپنی طرف اس وقت تک پناہ نہیں دیتا ہے جب تک تمہارا یتیم ہو جانا درست نہ ہو۔ اور حضرت نبی کریم ﷺکا فرمان ہے: إِنَّ الله وتر يُحِبُّ الْوِتر بے شک اللہ تعالیٰ طاق ہے۔ وہ طاق کو دوست رکھتا ہے ۔
یعنی وہ ایسے قلب کو دوست رکھتا ہے جو مخلوقات کی دوئی سے جفت نہ ہو۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے: اگر مجھے یہ تکلیف دی جائے کہ میں غیر اللہ کو دیکھوں تو میں نہ دیکھ سکوں گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر موجودہی نہیں ہے کہ میں اس کے ساتھ اس کا مشاہدہ کروں ۔
تو حاصل یہ ہوا کہ وہم نے عوام و خواص کو اللہ تعالیٰ سے حجاب میں کر دیا ہے۔ لیکن خواص الخواص: تو ان کو اللہ تعالیٰ سے کسی شے نے حجاب میں نہیں کیا لیکن عوام تو ان کو وہم نے مخلوق کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی طرف کھینچا ہے اور بادشاہ حقیقی اللہ تعالیٰ کی طرف سیر کرنے سے ان کو روک دیا ہے۔ تو وہ دوستوں کے مراقبے، اور ساتھیوں میں دشمنوں کی عداوت میں مشغول ہو گئے۔ تو حقیقی دوست اور محافظ اللہ تعالیٰ کی محبت اور مراقبہ ان سے فوت ہو گیا۔ لیکن خواص تو ان کو وہم نے مخلوقات کے ثابت ہونے ، اور انوار کے ساتھ ٹھہرنے کی طرف کھینچا۔ تو انہوں نے اس پر قناعت کر لیا۔ اور اس سے آگے کی طرف توجہ نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ سے قناعت کرنا محرومی ہے۔ اور خبر :عیاں مشاہدہ کی طرح نہیں ہے۔
میں نے اپنے شیخ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: اللہ کی قسم ، آدمیوں کو صرف وہم نے اللہ تعالیٰ سے حجاب میں کیا ہے۔ اور وہم عدمی شے ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ لیکن خواص الخواص: تو انہوں نے وہم کے حجاب کو پھاڑ دیا۔ اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم اور فہم حاصل ہوا۔ پس وہ کسی شے سے متعلق نہیں ہوئے ۔ اور انہیں اللہ تعالیٰ سے کسی شے نے حجاب میں نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ اپنے احسان و کرم سے ہم کو ان کے گروہ میں شامل فرمائے ۔ آمین ۔
اور چونکہ وہم سے طمع پیدا ہوتی ہے اور طمع سے ذلت اور بندگی پیدا ہوتی ہے۔ اور یقین سے ورع پیدا ہوتا ہے۔ اور ورع سے عزت اور آزادی پیدا ہوتی ہے۔ لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: أنت حر مِمَّا أَنتَ عَنْهُ ايس ، وَ عَبْدَ لِمَا أَنتَ فِيهِ طَامِع ۔ جس سے تم نا امید ہو۔ اس کی بندگی اور غلامی سے تم آزاد ہو۔ اور جس کے تم حریص ہو، اس کے تم بندے اور غلام ہو ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: بے شک انسان اس کی بندگی سے آزاد ہوا، جس کی طرف سے وہ نا امید ہوا۔ کیونکہ جب وہ اس شے سے نا امید ہوا۔ تو اپنی ہمت اس کی طرف سے اٹھالی ۔ اور اس کو بادشاہ حقیقی اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ کر دی۔ تو جب اس نے اپنی ہمت بادشاہ حقیقی کے ساتھ وابستہ کر دی۔ تو حق سبحانہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو اس کے لئے مسخر اور فرماں بردار کر دیا۔ تو کل چیزیں اس کا غلام اور اس کے حکم کی فرماں بردار ہو گئیں۔ جب تک تم نے خالق کا مشاہدہ نہیں کیا۔ اس وقت تک تم مخلوق کے ساتھ ہو۔ لیکن جب تم نے خالق کا مشاہدہ کیا ۔ تو مخلوقات تمہارے ساتھ ہو گئیں۔ تو جو شخص اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے۔ وہ اس کے ماسوی کی بندگی سے آزاد ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انسان اسی کا بندہ ہے جس سے وہ طمع کرتا ہے۔ اس لئے کہ کسی شے کی حرص کا لازمی تقاضا اس کی محبت ، اس کے سامنے عاجزی ، اور اس کی فرماں برداری ہے۔ تو وہ اس کے حکم اور نفع کا فرماں بردار ہوتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں