گمنامی اور اخلاص (باب اول)

گمنامی اور اخلاص حکمت نمبر11

گمنامی اور اخلاص کے عنوان سے  باب  اول میں  حکمت نمبر11 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور چونکہ گمنامی اخلاص کے اجزاء میں سے ہے اور اکثر گمنامی کے بغیر اخلاص پیدا نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے کہ گمنامی میں نفس کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اخلاص کے بعد گمنامی کا بیان فرمایا:
11) ادْفِنْ وُجودَكَ في أَرْضَ الخُمولِ ، فَما نَبَتَ مِمّا لََمْ يُدْفَنْ لاَ يَتِمُّ نِتَاجُهُ.
اپنے وجود کو گمنامی کی زمین میں دفن کر دے۔ کیونکہ جو درخت زمین میں گڑا ہوا نہیں ہوتا ہے وہ پھل نہیں دیتا ہے ۔

نفس گمنامی کی زمین میں دفن

میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں۔ اے مرید! تو اپنے نفس کو پوشیدہ رکھ، اور اس کو گمنامی کی زمین میں دفن کر دے۔ یہاں تک کہ نفس گمنامی سے مانوس ہو جائے ۔ اور اس میں لذت پائے ۔ اور گمنامی اس کے لئے شہد سے زیادہ شیریں ہو جائے ۔ اور شہرت اس کے لئے اندرائن سے زیادہ تلخ ہو جائے ۔ کیونکہ جب تو اس کو زمین میں دفن کر دے گا اور اس کی جڑیں چاروں طرف زمین میں پھیل جائیں گی تب تو اس کا پھل پائے گا۔ اور اس کا پھل تیرے لئے مکمل اور بہترین ہوگا اور یہی اخلاص کا سر ہے ۔ اور خواص الخواص کے مقام پر فائز ہونا ہے۔ لیکن اگر تو نے اس کو دفن نہیں کیا۔ اور شہرت کے پشت پر سوار چھوڑ دیا۔ کہ وہ ہر طرف دوڑے اور چکر لگائے ۔ تو اس کا درخت خشک ہو جائے گا اور اس کے پھل گر جائیں گے۔ لہذا جب عارفین اپنے معارف کے باغوں سے علم و حکمت اورسمجھ کے جو خزانے ان میں دفن ہیں، وہ چن لیں گے تو بھکاری فریق یا چور ڈاکو باقی رہ جائے گا۔

قلب میں زمین کی صفات

سید نا حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا !
اين تنبتُ الْحَبَّةُ ؟ قَالُوا فِي الْأَرْضِ ، قَالَ: كَذَالِكَ الْحِكْمَةُ لَا تَنْبُتُ إِلَّا فِي الْقَلْبِ كَالْأَرْضِ
بیج کہاں اگتا ہے؟ آپ کے اصحاب نے جواب دیا: زمین میں اگتا ہے۔ حضرت عیسی نے فرمایا: اس طرح حکمت ایسے قلب میں اگتی ہے جس میں زمین کی صفات (عاجزی وانکساری)ہوں
بعض عارفین نے فرمایا ہے جب تو اپنے نفس کو ہر زمین میں دفن کر لے گا۔ تو تیرا قلب ہرآسمان میں بلند ہو گا ۔ اور حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:
رُبَّ ‌أَشْعَثَ أَغْبَرَ ذِي طِمْرَيْنِ تَنْبُو عَنْهُ ‌أَعْيَنُ ‌النَّاسِ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ
بہت سے میلے کچیلے گدڑی پوش ایسے ہیں جن کو لوگ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لیں۔ تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو ضرور پوری کرے گا۔
وَكَانَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ جَالِسًا مَعَ أَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ كَبِيرٍ بَنِي تَمِيمٍ، فَمَرَّ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لِلْاقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ: مَا تَقُولَ فِي هذا؟ فَقَالَ: هذا يَا رَسُولَ اللهِ مِنْ فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ ، حَقِيقٌ إِنْ خَطَبَ أَنْ لا يُزوج ، وَإِنِ اسْتَاذَنَ أنْ لا يُؤْذَنَ لَهُ، وَإِنْ قَالَ أ لا يُسْمَعَ لَهُ ، ثُمَّ مَرَّ بِهِمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُترَ فِيْنَ، فَقَالَ لَهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَام وَمَا تَقُولَ فِي هَذَا؟ فَقَالَ: هَذَا حَقِيق إِن خَطَبَ أَنْ يُزَوَّج، وَإِنِ اسْتاذَنَ أنْ يُؤذَنَ لَهُ، وَإِنْ قَالَ أَنْ يَسْمَعَ لَهُ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هذا يعنى الْفَقِيرَ خَيْرٌ مِّنْ مِلْ ءِ الْأَرْضِ مِنْ هَذا
حضرت رسول اکرم ﷺ قبیلہ بنو تمیم کے سردار اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ اسی درمیان مسلمان فقیروں میں سے ایک شخص آنحضرت ﷺ کے سامنے سے گذرےحضرت رسول کریم ﷺ نے اقرع بن حابس سے دریافت فرمایا اس شخص کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ اقرع بن حابس نے جواب دیا یا رسول اللہ ! یہ شخص مسلمان فقیروں میں سے ہے۔ یہ اس لائق ہے کہ اگر یہ نکاح کا پیغام دے تو اس کا پیغام نہ قبول کیا جائے۔ اور اگر یہ پاس بیٹھنے کی اجازت مانگے تو اس کو اجازت نہ دی جائے اور اگر یہ کچھ بات کہے تو اس کی بات نہ سنی جائے۔ پھر اس کے بعد ان کے سامنے سے دولتمندوں میں سے ایک شخص گزرے۔ تو حضرت نبی کریم ﷺ نے اقرع بن حابس سے دریافت فرمایا: اور اس شخص کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ اقرع بن حابس نے جواب دیا: یہ شخص اس لائق ہے کہ اگر یہ نکاح کا پیغام دے تو اس کا پیغام قبول کیا جائے۔ اور اگر پاس بیٹھنے کی اجازت مانگے تو اس کو اجازت دی جائے ۔ اور اگر یہ کچھ کہے تو اس کی بات سنی جائے ۔ پس حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ فقیر اس مالدار سے زمین کے برابر افضل ہے۔
گمنامی کی تعریف میں بہت سی احادیث اور مشہور فضائل ہیں۔ اور اگر اس میں راحت اور قلب کی فراغت کے سوا اور کوئی خوبی نہ بھی ہوتی تو اتنی ہی کافی تھی۔
اور گمنامی کے بارے میں حضرت حضرمی نے فرمایا ہے:
عشْ خَامِلِ الذِّكْرِ بَيْنَ النَّاسِ وَارْضَ بِهِ فَذَاكَ أَسْلَمُ لِلدُّنْيَا وَلِلدِّينِ
لوگوں کے درمیان گمنام زندگی بسر کرو ۔ اور اس پر راضی رہو ۔ کیونکہ یہ دنیا اور دین کے لئے زیادہ محفوظ اور پرسکون ہے۔
مَنْ عَاشَرَ النَّاسَ لَمْ تَسْلِمُ دِيَانَتُهُ وَلَمْ يَزَلْ بَيْنَ تَحْرِيك وتسكين
جو شخص لوگوں سے میل جول رکھتا ہے۔ اس کی دیانت محفوظ نہیں رہتی ہے۔ اور وہ ہمیشہ بے چینی اور سکون کے درمیان رہتا ہے۔
ایک عارف نے فرمایا ہے: گمنامی نعمت ہے۔ لیکن نفس اس سے بھاگتا ہے۔ اور شہرت زحمت ہے لیکن نفس اسکی خواہش کرتا ہے اور ایک دوسرے عارف نے فرمایا ہے ہمارا طریقہ تصوف ان لوگوں کے لائق ہے جن کی مقدس ارواح کے فیض سے قلوب وارواح کی کثافتیں دور ہو کر صاف ہوں
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : جو شخص مرتبہ اور سرداری میں مبتلا ہو، اس کے لئے واجب ہے کہ خراب ( قابل نفرت ) اشیاء میں سے کوئی ایسی شے استعمال کرے جس سے لوگوں کی نگاہوں میں اس کی سرداری اور مرتبے کی عزت ختم ہو جائے ۔ اگر چہ وہ شے مکروہ ہو ۔ ہاں حرام نہ ہو۔ اور دوا کے ارادے سے مکروہ کا استعمال بالاتفاق جائز ہے۔ جیسے کہ دکانوں اور گھروں پر مانگنا، اور بازار میں کھانا، یا ایسی جگہ کھانا جہاں لوگ دیکھتے ہوں اور جیسے بازار میں سونا، اور جیسے مشکیزے میں پانی بھر کر پلانا ، اور حفاظت سے سر پر گو بر اٹھا کر لے جانا ، اور داڑھی منڈوانا تو حرام ہے، مونچھ منڈا کر چلنا، اور حرص و بخیلی اور تنگی ظاہر کرنا اور گدڑی پہننا، اور لمبی تسبیح لٹکا کر پھرنا، اور ہر وہ مباح و مکروہ شے جونفس پر گراں و نا گوار ہو۔ مگر حرام سے پر ہیز کرے۔
حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: جس طرح خراب زمین میں بیج ڈالنا درست نہیں ہے۔ اس طرح نا پسند حالت کے ساتھ گمنامی جائز نہیں ہے۔ اور غصہ پر اس کا قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ محسوس زندگی کا ختم ہو نا کل نیکیوں سے روک دیتی ہے ۔ خواہ وہ واجب ہوں یا مستحب لہذاز ندگی کوختم کر دینا جب کہ اس کا باقی رکھنا ممکن ہو ، سب کے نزدیک حرام ہے۔ اس پر اجماع ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق:۔
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ تم لوگ اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ پڑو
مگر گمنامی کے لئے جو طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔ ان سے زندگی ختم نہیں ہوتی ہے ۔ بلکہ ان سے صرف لوگوں کی نگاہ میں کمال ختم ہوتا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں کمال زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا یہ قطعی جائز اور مباح ہے۔
ایک عارف نے جواب دیا ہے: جب فانی زندگی کو بچانے کے لئے مکروہ کا استعمال جائز ہے تو دائمی زندگی یعنی معرفت کو فوت ہونے سے بچانے کیلئے زیادہ بہتر طریقے پر جائز ہے۔ اور کبوتر کے چور کا قصہ اس پر گواہ ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ
اور میں نے اپنے شیخ کو یہ کہتے ہو ئے سنا ہے ۔ سچا فقیر معمولی مباح اشیاء سے اپنے نفس کو مار دیتا ہے۔ اور جھوٹا فقیر حرام میں مبتلا ہو کر بھی اپنے نفس کو نہیں مار سکتا ہے۔ اور وہ اکثر ظلمانی احوال سے منع کرتے تھے ۔ اور فرماتے تھے:۔ ہمارے سامنے بہت سی مباح اشیاء ہیں ۔ جو ہم کو حرام اور مکروہ اشیاء سے بے نیاز کر دیتی ہیں۔ اور سوال کرنا (مانگنا ) مکروہ یا حرام ہے۔ لیکن جسم کی قوت کے ارادے سے ضرورت کے مطابق ، یا روح کی قوت کے ارادے سے حرام نہیں ہے۔
حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ نے شرح بخاری شریف میں حضرت ابن عربی فقیر کے حوالہ سے بیان فرمایا ہے:
سوال کرنا ، ابتداء میں فقیر پر واجب ہے۔ لہذا اس میں غور کرو ۔ اور کتاب مباحث اصلیہ میں اس کو مکمل طریقے پر بیان کیا گیا ہے۔ لہذا اس کا مطالعہ کرنا چاہیئے ۔ اور اس کا بیان انشاء اللہ عنقریب آئے گا۔ جب مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کی تشریح کی جائے گی۔
لَا تَمُدَّنَ يَدَكَ إِلَى الْأَخْذِ مِنَ الْخَلَائِقِ مخلوقات سے لینے کے لئے تو اپنا ہاتھ ہر گز نہ بڑھا
اگر تمہارا یہ اعتراض ہو: یہ خراب چیزیں جو بیان کی گئی ہیں۔ ان میں شہرت بھی ہے اور گمنامی کے معنی ، لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہنا ہے۔ اور ان خراب اشیاء میں تو بہت بڑی شہرت ہے۔ تو میرا جواب: یہ ہے۔ گمنامی لوگوں کے نزدیک مرتبہ کے ختم ہونے ، اور ولایت کے پوشیدہ رہنے کو کہتے ہیں۔ لہذا جوشے بھی لوگوں کے نزدیک مرتبہ گرا دے، اور ولایت کا الزام مٹادے ۔ وہی گمنامی ہے ۔ اگر چہ بظا ہر شہرت ہو ۔
اسی لئے ہمارے شیخ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے۔ ہمارا طریقہ تصوف شہرت میں گمنامی اور گمنامی میں شہرت ہے۔ اور حضرت نجیبی نے امالہ میں فرمایا ہے۔ جو اس معاملے میں نص کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو شخص یہ اعتراض کرتا ہے کہ صوفیائے کرام کا گدڑی پہننا شہرت ہے۔ اس کے لئے یہ جواب ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرنے کے لئے عراق سے شام تک پیدل چل کر سفر کیا۔ اور ان کے جسم پر بغیر سلی ہوئی صرف ایک موٹی چادر تھی۔ ان کے اوپر یہ اعتراض کیا گیا کہ آپ نے اس قسم کی چادر پہن کر اپنے آپ کو شہرت دی ہے۔ حضرت سلمان فارسی نے جواب دیا: بھلائی صرف آخرت کی بھلائی ہے اور میں حقیقتا ایک غلام ہوں ۔ اور جس قسم کا لباس غلام لوگ پہنتے ہیں، ویسا ہی میں بھی پہنتا ہوں۔ لہذا جب میں آزاد کر دیا جاؤں گا، اس وقت بہترین اور قیمتی لباس پہنوں گا۔ جس کے کنارے پھٹے پرانے نہ ہوں گے ۔
اسی طرح حضرت امام غزالی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے:۔ وہ اپنے شیخ کے حکم سے بیل کا چمڑا پیٹھ پر اٹھاتے تھے اور بازار میں جھاڑو دے کر صفائی کرتے تھے ۔ اور مشکیزہ میں پانی بھر کر لوگوں کو پلاتے تھے ۔ اور اسی قسم کے واقعات میں نے اپنے شیخ سے بار ہا سنا ہے ۔ اور میں کسی ایسے شخص سے واقف نہیں ہوں جس نے اس قسم کی خراب حرکتوں سے شہرت حاصل کی ہو۔ اور اس واقعہ پر غور کرو جو حضرت شیخ ابن عربی کے ساتھ پیش آیا۔ جب انہوں نے یہ فرمایا: اکثر ایسا ہوا ہے کہ زندگی لمبی کر دی گئی اور اس کی امداد کم کر دی گئی۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں