گناہ کو حقیر سمجھنا (باب ششم)

گناہ کو حقیر سمجھنا کے عنوان سے  باب  ششم میں  حکمت نمبر49 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے گناہ کو چھوٹا کہنے کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا:
فإنَّ مَنْ عَرَفَ رَبَّهُ اسْتَصْغَرَ في جَنْبِ كَرَمِهِ ذَنْبَهُ.
بے شک جو شخص اپنے رب کو پہچانتا ہے۔ وہ اس کے رحم و کرم کے سامنے اپنے گناہ کو حقیرسمجھتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: بلکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے وہ اپنے گناہ کے دیکھنے ہی سے غائب ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مشاہدہ میں اپنے نفس سے فنا ہو گیا۔ تو اگر اس سے حکمت کے خلاف کوئی فعل صادر ہوتا ہے تو اس پر نعمت کا شہود غالب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔
نَبِيءُ عِبَادِي إِنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ آپ میرے بندوں کو خبر دیجئے ، کہ بے شک میں بخشنے والا ، رحم کر نیوالا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
وَأَنَّ ‌عَذَابِي هُوَ ٱلۡعَذَابُ ٱلۡأَلِيمُمیرا عذاب ، درد ناک عذاب ہے
تو در حقیقت یہ اس کے لئے ہے جس نے توبہ نہیں کیا ہے ۔ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے:۔
لَوْ اذْنبَتُمُ حَتَّى تَبْلُغَ خطَایَاكُمْ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ تُبْتُمْ لَتَابَ اللهُ عَلَيْكُمْ، وَلَوْ أَنَّ الْعِبَادَ لَمْ يُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِهِمْ ثُمَّ جَاءَ بِقَوْمٍ أَخَرِيْنَ يُذْنبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيم
اگر تم اتنا گناہ کرو کہ تمہارے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں۔ پھر تم تو بہ کرو تو البتہ اللہ تعالیٰ تمہاری تو بہ کو قبول کرے گا اور اگر بندے گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کو فنا کر کے دوسری قوم کو پیدا کرتا جو گناہ کرتے ، پھر مغفرت مانگتے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخشا۔ کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے۔
اور پیاسے کے پانی کے پاس پہنچنے، اور بانجھ کے باپ بننے، اور راستہ بھولے ہوئے شخص کے منزل پر پہنچنے سے زیادہ اللہ تعالیٰ اپنے تو بہ کرنے والے بندے کے تو بہ سے خوش رہتا ہے۔ لیکن یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کے نزدیک اس کا گناہ اتنا حقیر ہو جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حلم سے دھوکا کھا جائے ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی ۔اے داؤ د میرے نیک بندوں سے کہہ دیجئے ۔۔ وہ دھوکا نہ کھا ئیں ۔ بیشک اگر میں ان پر اپنا عدل و انصاف قائم کروں گا۔ تو ان کو عذاب دوں گا ۔ اور یہ ان کے اوپر ظلم نہ ہو گا۔ اور میرے گناہ گار بندوں سے کہہ دیجئے ۔ وہ نا امید نہ ہوں ۔ میرے نزدیک کوئی گناہ بڑا نہیں ہے۔ میں اس کو ان کے لئے بخش دوں گا۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ جب کریم کے رحم و کرم کا چشمہ ظاہر ہوتا ہے تو گناہ گار کو نیک کے ساتھ ملا دیتا ہے۔ حضرت شیخ ابو العباس رضی اللہ عنہ نے اپنے حزب میں فرمایا ہے:۔ الہٰی تیری معصیت نے مجھ کو طاعت کے ساتھ پکارا۔ اور تیری طاعت نے مجھ کو معصیت کے ساتھ پکارا۔ تو دونوں میں سے کس میں میں خوف کروں۔ اور کس میں امید کروں۔ اگر تو کہے کہ اس معصیت کے ساتھ خوف کروں جس کو تو نے اپنے فضل سے میرے سامنے پیش کیا تو تو نے میرے لئے کوئی خوف نہیں چھوڑا ۔ اور اگر تو کہے کہ اس طاعت کے ساتھ امید کروں، جس کو تو نے اپنے عدل کے ساتھ میرے سامنے کیا ہے تو تو نے میرے لئے کوئی امید نہیں چھوڑی۔ تو کاش مجھ کو معلوم ہوتا کہ کس طرح میں اپنے احسان کو تیرے احسان کے ساتھ دیکھوں ۔ یا کس طرح تیرے فضل و کرم کو تیری نافرمانی کرنے کے باوجود، میں بھلا دوں؟
حضرت شیخ رضی اللہ عنہ کے کلام کا مفہوم یہ ہے:۔ بندہ جب معصیت میں مشغول ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی قہریت اور عظمت، اور اپنے نفس کی کمزوری اور عاجزی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ تو وہ معصیت سے اپنے نفس کے لئے ذلت اور انکساری، اور اپنے رب کی بڑائی اور تعظیم حاصل کرتا ہے۔ اور یہ سب عبادتوں سے افضل ہے ۔ تو اس کو اس کی وہ معصیت جس میں وہ مشغول ہے، پکارتی ہے۔ اس طاعت کے ساتھ جس کو وہ اس معصیت سے حاصل کرتا ہے۔ اور جب طاعت میں مشغول ہوتا ہے تو وہ اکثر اس میں اپنے نفس کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اور اس کے فائدے اور حصے کی خواہش کرتا ہے ۔ تو وہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرتا ہے۔ اور اس کے ادب کو خراب کرتا ہے۔ اور یہ معصیت ہے۔ تو جب وہ طاعت میں مشغول ہوتا ہے تو وہ طاعت اس کو اس معصیت کے ساتھ پکارتی ہے جس کو وہ اس سے حاصل کرتا ہے۔ تو وہ نہیں جانتا ہے کہ دونوں میں کس سے خوف کرے اور کس سے امید کرے؟ اور شیخ کا قول ‘اگر تو کہے کہ اس معصیت کے ساتھ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تو اس معصیت کی صورت کی طرف نظر کرے۔ جس کو تو نے اپنے فضل کے ساتھ میرے سامنے کیا ہے۔ تو اس کا نام مٹ جاتا ہے۔ اور اس کی نشانی ختم ہو جاتی ہے اور اگر تو اس طاعت کی صورت کی طرف دیکھے۔ جس کو تو نے اپنے انصاف کے ساتھ میرے سامنے کیا ہے۔ تو وہ کمزور ہو کر مٹ جاتی ہے۔ اور صرف اللہ وہاب وکریم سے امید باقی رہ جاتی ہے جو بغیر سبب کے دیتا ہے اور حساب اور عتاب کو ڈھانپ لیتا ہے ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں