یقین کا نور (چودھواں باب)

یقین کا نور کے عنوان سے چودھویں باب میں  حکمت نمبر 137 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : جب یقین کا نور پوری طرح روشن ہو جاتا ہے تو وہ کائنات کے وجودکوڈھانپ لیتا ہے۔ اور آنکھوں کے مفقود ہو جانے پر بھی عیاں (ظاہر دیکھنا ) واقع ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے نور کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے:۔
137) مَا حَجَبَكَ عَنِ اللهِ وُجُودُ مَوْجُودٍ مَعَهُ ، وَلَكِنْ حَجَبَكَ عَنْهُ تَوَهُّمُ مَوْجُودٍ مَعَهُ
تم کو اللہ تعالیٰ سے ، اُس کے ساتھ کسی موجود کے وجود نے حجاب میں نہیں کیا ہے۔ اس لئے کہ اُس کے ساتھ کوئی شی نہیں ہے۔ بلکہ تم کو اس کے ساتھ موجود کے وہم نے اُس سے محجوب کر دیا ہے ۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ حق سبحانہ تعالیٰ ظاہر ہے۔ اور اُس کا نور آنکھوں کے سامنے عیاں ہے
اور در حقیقت اُس کو صرف اُس کے اہم پاک حکیم اور قہار کے تقاضے نے محجوب کر دیا ہے۔ لہذا تم کو اُس کے ساتھ کسی شے کے وجود نے اللہ تعالیٰ کے مشاہدے سے محبوب نہیں کیا ہے۔إِلهُ مَعَ اللهِ تَعَالَى اللهُ عمَّا يُشْرِكُون ( کیا اللہ تعالی کے ساتھ کوئی معبود ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بلند اور پاک ہے۔ جو یہ لوگ اُس کے ساتھ شریک کرتے ہیں۔ لیکن تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ موجود کے وجود کے وہم نے حجاب میں کر دیا ہے۔ حالانکہ اُس کے ساتھ کوئی شے نہیں ہے۔ اور وہ جیسا تھا، ویسا ہی ہے۔ اور نہ کوئی شے باقی رہی ، نہ باقی ہے :۔ ( هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ )وہی اول اور آخر اور ظاہر اور باطن ہے۔
وہ اپنی ذات ، اور اپنی صفات ، اور اپنے افعال میں یکتا ہے۔ پس فعل بغیر صفت کے صادر نہیں ہوتا ہے۔ اور صفت موصوف سے جدا نہیں ہو سکتی ہے۔ لہذا فعل متحد ہے۔ اور فاعل واحد ہے۔ اور صفت متحد ہے اور صفت کے ساتھ موصوف واحد ہے۔
حضرت ششتری رضی اللہ عنہ کا کلام ہے :-
صِفَاتِي لَا تَخْفَى لِمَنْ نَظَرُ وَذَاتِي مَعْلُومَةٌ تِلْكَ الصُّوَرُ
فَافَنِ عَنِ الْإِحْسَاسِ تَرَى عِبَرُ
میری صفات دیکھنے والے کے لئے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ اور میری ذات ان صورتوں میں نمایاں ہے۔ اس لئے تم احساس سے (محسوسات سے ) فنا ہو جاؤ تم عبرتوں (حقیقتوں ) کو دیکھو گے۔
اور غیر کے وہم ہونے کا سبب فکر کا نہ ہونا ہے۔ اور فکر نہ ہونے کا سبب، جلد حاصل ہونے والی یعنی دنیا کی محبت ہے۔ کیونکہ دنیا ، علام الغیوب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف سیر کرنے سے دلوں کو غافل کرنے والی ہے۔ اور دنیا کی محبت کی حکمت قہریت کا ظاہر ہوتا ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی قہاریت ہے۔ کہ وہ بغیر حجاب کے محجوب ہو گیا ہے۔ اور اپنے سورج کے نور کو بغیر بدلی کے ڈھانپ دیا ہے۔
نیز عبودیت کے اجسام نے ربوبیت کے انوار کے مظہروں کو چھپا دیا ہے۔ اور حکمت کے وجود نے قدرت کے ظہور کو پوشیدہ کر دیا ہے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے:۔ اللہ تعالیٰ زمان و مکان ،اور جہت ، (طرف) اور کیفیت ،اور مادہ، اور صورت سے پاک ہے۔ اور اس کے باوجود نہ اُس سے زمان و مکان خالی ہے ، نہ کمیت و کیفیت نہ جسم نہ جو ہر و عرض۔ کیونکہ وہ اپنی لطافت کی وجہ سے ہرشے میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ اور اپنی نوریت کی وجہ سے ہرشے میں ظاہر ہے۔ اور اپنے اطلاق (مطلق ہونے ) اور احاطہ (محیط ہونے ) کی وجہ سے ، ہر کیفیت سے، اس کے ساتھ مقید نہ ہوتے ہوئے متکیف ہے۔ اور جو شخص اُس کا ذوق نہیں رکھتا ہے اور اُس کا مشاہدہ نہیں کرتا ہے۔ وہ بصیرت کا اندھا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کےمشاہدے سے محروم ہے۔
حضرت ابن و فارضی اللہ عنہ کا کلام ہے:۔ هوَ الْحَقُّ الْمُحِيطُ بِكُلِّ شَيْ هُوَ الرَّحْمَنُ ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ
وہی حق سبحانہ تعالیٰ ہرشے کا احاطہ کئے ہوئے (گھیرے ہوئے ) ہے۔ وہی بڑا مہربان ، عرش کا مالک ، بزرگی والا ہے۔
هوَ النُّورُ الْمُبِيْنُ بِغَيْرِ شَكٍ هُوَ الرَّبُّ الْمُحَجَبُ فِي الْعَبِيدِ
بغیر کسی شک وشبہ کے وہ کھلا ہوا نور ہے۔ وہ پروردگار بندوں میں چھپا ہوا ہے۔
هُوَ الْمَشْهُودُ فِي الْأَشهَادِ يَبْدُو فَيُخْفِيهِ الشُّهُودُ عَنِ الشَّهِيدِ
وہی مشہود ( موجود و حاضر ) ہے۔ جو مشاہدہ کرنے والوں کے اندر ظا ہر ہوتا ہے۔
پس شہو دہی اُس کو مشاہدہ کرنے والے سے چھپا دیتا ہے۔
هُوَ الْعَيْنُ الْعَیَانُ لِكُلِّ عَيْبٍ هُوَ الْمَقْصُودُ مِنْ بَيْتِ الْقَصِيدِ
وہ ہر غیب کے لئے عین ظاہر ہے۔ ہر ارادہ کرنے والے کے گھر کا وہی مقصود ہے۔
جَمِيعُ الْعَالَمِينَ لَهُ ظِلَالُ سَجُودٌ فِي الْقَرِيبِ وَ فِي الْبَعِيدِ
تمام عالم اُس کا سایہ ہے۔ نزدیک ہوں یا دور سب اُس کے سامنے سجدہ کرنے والے ہیں ۔
وَهَذَا الْقَدُرُ فِي التَّحَقِيقِ كَافٍ فَكُتِ النَّفْسَ عَنْ طَلَبِ الْمَزِيدِ
اور حقیقت حاصل کرنے کے لئے اتنا کافی ہے۔ لہذا اپنے نفس کو زیادہ کی طلب سے باز رکھو۔
حضرت شیخ قطب مولائی عبد لا سلام بن مشیش رضی اللہ عنہ نے اپنے خلیفہ حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے اُن کے لئے اپنی وصیت میں فرمایا ہے : – ایمان کی نظر کو تیز کرو تم اللہ تعالیٰ کو ہرشے میں ، اور ہرشے کے نزدیک اور ہرشے کے ساتھ ، اور ہرشے کے قبل ، اور ہرشے کے بعد ، اور ہرشے کے اوپر ، اور ہرشے کے نیچے ، اور ہرشے سے قریب ۔ اور ہرشے کو محیط، پاؤ گے۔ اس قرب اور احاطہ کے ساتھ جو اُس کا وصف ہے۔ اور ظرف ( زمان و مکان ) حدود، اور اطراف ، اور محبت اور مسافتوں میں نزدیکی ، اور دوری ، اور مخلوقات میں دورہ اور حلول ، کے خیال کو ترک کرو۔ اور اس کے وصف اول، اور آخر، اور ظاہر ، اور باطن میں سب کو فنا کر دو ۔ اور وہ وہی ہے۔ جیسا کہ وہ ہے۔
(كَانَ اللَّهُ وَ لَا شَيْءَ مَعَهُ ، وَ هُوَ الآنَ عَلَى مَا عَلَيْهِ كَانَ ) اللہ تعالیٰ تھا اور اس کے ساتھ کوئی شے نہ تھی۔ اور وہ اب بھی اسی حالت پر ہے جس حالت پر پہلے تھا۔
ایک عارف نے اُن کے قول کی تشریح میں فرمایا ہے:۔ حضرت شیخ عبدالسلام بن مشيش نے اپنے قول ( ظرف ، اور حدود وغیرہ کو ترک کردو ۔ آخر تک ) میں اس پر تنبیہ فرمائی ہے کہ اُن کے کلام میں ظرف سے مرادو، زمان و مکان نہیں ہے۔ کیونکہ وہ مخلوقات میں سے ہے۔اور وہ صرف ذوق کے امور ہیں۔ لہذا تم پوری پاکیزگی اور مشابہت کے باطل ہونے پرمکمل اعتقاد رکھو ۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کو مضبوطی سے پکڑو :-
ليْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
اُس کے مثل کوئی بھی نہیں ہے۔ اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ اور تم اس حقیقت کو اس کے اہل کے سپرد کر دو۔ کیونکہ بیشک وہ لوگ اس شے میں جس کی طرف انہوں نے رمز کیا ہے۔ بصیرت پر قائم ہیں۔ اور اس کو انہوں نے ذوق سے پایا ہے ۔ بلکہ وہ خالص ایمان اور خالص عرفان میں سے ہے اور وہی توحید کی حقیقت اور ایمان کا خلاصہ ہے۔ اور حضرت شیخ ابن مشیش کا یہ قول( وہ اب بھی اسی حال پر ہے۔ جس حال پر پہلے تھا )اگر چہ کی حدیث شریف میں وارد نہیں ہوا ہے۔ پھر بھی وہ فی نفسہ صحیح ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اشیاء کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بلکہ وہ صرف خیال کی طرح ہیں اور سایہ کے وجود کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے وحدانیت منسوخ نہیں ہوتی ہے اور اس کی فردانیت ختم نہیں ہوتی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ جس شخص پر احدیت کا شہود غالب ہو جاتا ہے۔ اور وحدانیت کا راز منکشف ہو جاتا ہے۔ اورچشم د ید حقیقت میں مستغرق ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے نفس کے شعور (احساس) سے جدا ہو جاتا ہے۔ اور ماسوی اللہ سے بالکل غائب ہو جاتا ہے۔ اور اگر اس کو نفس کے شعور کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے تو وہ اس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم اور اس میں اور اس کے ساتھ ظاہر اور اس کے احکام میں سے ایک حکم دیکھتاہے
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے لطائف المنن میں فرمایا ہے :۔ کائنات کے وجود کے ساتھ زیادہ مشابہ شے ، اگر تم اس کو بصیرت کے آنکھ سے دیکھو ۔ سایہ کا وجود ہے۔ اس لئے کہ سایہ وجود کی مکمل تعریف کے اعتبار سے موجود نہیں ہے۔ اور عدم کی مکمل تعریف کے اعتبار سے موجود نہیں ہے۔ اور جب مخلوق کا سایہ ہونا ثابت ہو گیا۔ تو خالق کی احدیت ( یکتائی ) منسوخ نہیں ہوئی۔ اس لئے کہ شے اپنے مثل کی خواہش کرتی ہے۔ اور اپنی شکل میں مل جاتی ہے۔
اسی طرح جو شخص مخلوقات کے سایہ ہونے کا مشاہدہ کرتا ہے۔ وہ اس کو اللہ تعالیٰ سے نہیں روکتی ہے۔ کیونکہ درختوں کا سایہ جو نہروں میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ کشتیوں کو چلنے سے نہیں روکتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں